اردو لیکچرر ٹیسٹ کی تیاری

 ……..         اصولِ تقطیع        …………. 

تقطیع کے لفظی معنی :

          عربی لفظ ۔ قطع سے ہے بمعنی کاٹنا۔ ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ اجزا میں بانٹنا ۔ فن تقطیع علم عروض کا ایک حصہ ہے۔ جس کی رو سے اشعار کا وزن کیا جاتا ہے۔ ان کے بحور کے نام متعین اور مقرر کیے جاتے ہیں۔ اور ان کے ارکان کی تشخیص کی جاتی ہے۔ اشعار کے بحر ہوتے ہیں اور بحروں کے ارکان ہوتے ہیں جن پر شعروں کے وزن جانچے جاتے ہیں۔ ان بحروں کی ابتدا عربوں سے منسوب ہے۔ عرب شاعری میں کم و بیش بیس کے قریب متداول اور مروج بحور ہیں، جن میں سے طویل اور ہزج خاص طور پر مستعمل ہیں۔ عربوں کے بحور فارسیوں نے اختیار کیے اور اردو شعرا نے بھی انہی کا تتبع کیا۔ انگریز شعرا اور یورپی شعرا نے بھی اپنے بحور کا تَتَبُّع کیا ہے۔ ان کا فن تقطیع ہمارے فن تقطیع سے جدا ہے۔

 علمِ عروض سیکھنے کیلئےالفاظ کی حرکات وسکنات پر دسترس حاصل ہونی چاہیے 

تلفظ ،ادائیگی  درست ہونی چاہیے ۔ شاعری صوتی اعتبار سے کی جاتی ہے

یا یوں کہ لیں کہ شاعری مکتوبی نہیں بلکہ ملفوظی ہوتی ہے 

 آپ بول کیا رہے ہیں یہ دیکھنا ہے آپ لکھ کیا رہے ہیں اسے نہیں دیکھا جاتا

جیسے خواب  یا بالکل کو آپ لکھ تو یوں رہے ہیں مگر شاعری میں خواب کو خاب بولیں گے بالکل کو بل کل بولیں گے

ان الفاظ کو لکھا ویسے ہی جائے گا مگر بولا جانا  گنا جاتا ہے تقطیع میں بولے جانے والے حروف کو ہی گنا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

تفصیل :

یہ بات ذہن نشیں کر لیجئے

(کہ) اور (نہ) ہمیشہ یک حرفی باندھا جائے گااور لفظ ( یہ) کو بھی یک حرفی باندھنا چاہئے مگربعض شعراء کرام ( یہ) کو دو حرفی بھی باندھ لیتے ہیں ۔

یاد رکھنےکی بات ہے کہ…

لفظ “کیا” دو الگ الگ لفظ ہیں

لفط ( کیا) استفہامیہ ، سوالیہ ؟ کو دو حرفی باندھا جا تا ہے یعنی کیا ؟ استفہامیہ کو ” کا ” فع پراور دوسرے ” کیا ” یعنی میں نے یہ کام کیا ہے والے کیا کو…. ” ک یا ” فعو پر باندھا جاتا ہیں.اور کیوں” کو دو حرفی یعنی “کوں ” کے وزن پر باندھا جائے گا ۔ ، ہے، ہیں، میں، وہ، جو، تھا، تھے، کو، کے ، تے ، اور، رے جیسے الفاظ دو حرفی وزن پر بھی درست ہیں اور انہیں ایک حرفی وزن میں باندھنا بھی درست ہے ۔ لہذا ان جیسے الفاظ کیلئے مصرع میں ان کے مقام پر بحر میں جس وزن کی سہولت دستیاب ہو وہ درست ہو گا ۔

ایسے ہی “ے” یا “ی” یا “ہ” پر ختم ہونے والے الفاظ کے ان اختتامی حروف کو گرایا جا سکتا ہے ۔ یعنی جن الفاظ کے آخر میں جے ، گے، سے، کھے، دے، کھی، نی، تی، جہ، طہ، رہ وغیرہ ہو ان میں ے، ی یا ہ کو گرا کر انہیں یک حرفی وزن پر باندھنا بھی درست ہو گا اور اگر دوحرفی وزن دستیاب ہو تو دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی لفظ کے اختتامی حرف کے نیچے زیر ہو اسے دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے اور یک حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ( مثال : دشتِ یا وصالِ کے ت یا لام کے نیچے زیر کی صورت میں انہیں دشتے اور وصالے پڑھا جائے گا ۔ ایسے الفاظ کی اختتامی ت یا لام کو بحر میں دستیاب وزن کے مطابق یک حرفی یا دو حرفی باندھنے کی دونوں صورتیں درست ہوں گی .

تقطیع کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رہے کہ نون غنہ اور ھ تقطیع میں شمار نہیں کئے جائیں گے یعنی تقطیع کرتے ہوئے ، ہیں کو( ہے) اور میں کو(مے) ، خوں کو خو، کہیں کو کہی ۔مجھ کو ( مج ) کبھی کو (کبی) پتھر کو پتر اور چھیڑے کو چیڑے پڑھا جائے گا.

دوست اور گوشت کو دوس اور گوش ( فاع یا فِعْل 2 11) پر باندھا جائے گا جہاں تین ساکن اکٹھے آ رہے ہوں وہاں ایک ساکن کو گرایا جا ئے گا۔

لفظ میں تیسرے ساکن حرف کا اسقاط 

پر بات کی گئی ہے جس میں فرماتے ہیں کہ

 اردو میں ایسے لفظ جن میں تین ساکن حروف لگاتار آئیں عموماً وہ ہیں جو الف ،س، ت ،و،س،ت،ی،س،ت،الف ،ش،ت،و،ش،ت،الف،خ،ت،و،خ،ت،پر ختم ہوتے ہیں ۔چند مثالیں دیکھئے

۱۔ الف ،س،ت : درخواست ،راست (الف ،س،ت: ساکن)

۲۔ و،س،ت : پوست،دوست (و ،س، ت: ساکن)

۳۔ ی،س،ت : چیست ،زیست (ی ،س ،ت : ساکن)

۴۔ الف،ش،ت : کاشت ، برداشت ( الف،ش،ت : ساکن)

۵۔ و ،ش،ت : گوشت( و،ش،ت: ساکن)

۶۔ الف،خ ،ت : ساخت، شناخت ( الف ،خ ،ت : ساکن)

۷۔ و،خ، ت : سوخت،کوفت :(و،خ،ت: ساکن)

 ان الفاظ میں پہلا ساکن رکن ایک حرفِ علّت ہے(الف،واؤ، ی) اور تیسرا ساکن حرف دوسرے ساکن حرف میں ضم ہو کر ایک نئی آواز پیدا کر رہا ہے ۔ ایسے الفاظ کی تقطیع کے اُصول حسبِ ذیل ہیں 

 (الف) ایسے الفاظ کا تیسرا ساکن حرف تقطیع میں ہمیشہ ساقط کر دیا جاتا ہے ۔مثلاً زیست کو زیس محسوب کیا جائے گا 

 (ب) اگر ایسا لفظ شعرکے اندر واقع ہو تو دوسرے ساکن حرف پر کوئی مناسب حرکت تصوّر کر لی جاتی ہے اور اسی مناسبت سے لفظ کی تقطیع کی جاتی ہے ۔ لیکن اگر ایسا لفظ مصرع کے آخر میں آئے تو تیسرا ساکن ساقط کر دیا جاتا ہے اور دوسرا ساکن اپنی حالت میں ہی محسوب ہوتا ہے ۔ مثال دیکھئے

نامرادانہ زیست کرتا تھا

 میرؔ کی وضع یاد ہے ہم کو

یہاں زیست مصرع کے اندر آیا ہے چنانچہ اس کو س پر زبر تصور کر کے زیسَ محسوب کیا جائے گا…

تقطیع کرتے وقت متحرک کے مقابل متحرک اور ساکن کے مقابل ساکن حرف لایا جائے .اس کے لئے آپ کو متحرک اور ساکن حروف کی پہچان ہونا ضروری ہے

مثال کے طور پر مُتَفاعلن ۔۔۔۔۔ مُ تَ فا عِ لُن 1 1 2 1 2 اس میں

مُ ، تَ اور عِ  یک حرفی ہیں اور متحرک بھی ہیں ۔ جب کہ فا اور لُن دو حرفی ہیں

 وہ حروف جن پر زبر زیر پیش ہو وہ متحرک کہلاتے ہیں ۔ جن حروف پر جزم ہوگی وہ ساکن کہلائیں گے

لفظ ‘شاعر’ – یعنی شا اور عر ۔۔۔۔  یہ لفظ دو ہجوں پر مشتمل ہے اور دونوں دو حرفی ہیں۔

لفظ ‘شاعری’ یعنی شا عِ ری ۔۔۔۔۔ یہ لفظ تین ہجوں پر مشتمل ہے جس میں شا اور ری دو حرفی ہجے ہیں اور عِ یک حرفی ہجا ہے۔

 یا یوں کہہ لیں کہ یک حرفی کے مقابل یک حرفی اور دو حرفی کے مقابل دو حرفی لایا جائے . اگر یہ تال میل ( ہم آہنگی، مطابقت، ربط ضبط) درست ہوا تو شاعری وزن میں ہوگی اگر درست نہ ہوا تو وزن سے خارج ہوگی . 

آسان تقطیع 

 متحرک اور ساکن کو سمجھ لینے کے بعد ہم متحرک اور ساکن کے لیے کوئی نشان

مقرر کر لیتے ہیں

 ایسا حرف جس پر زبر ہو ، زیر ہو یا پیش ہو مگر اس کے ساتھ کوئی ساکن نہ ملا ہو

اس کے لیے ہم عدد ایک یعنی 1 مقرر کر لیتے ہیں

 ایسے حروف جن پر زبر ہو یا زیر ہو یا پیش ہو مگر ان کے ساتھ کوئی ساکن مل رہا ہو

اس کے لیے ہم عدد دو یعنی 2 مقرر کر لیتے ہیں

اب آتے ہیں تقطیع کی طرف

لفظ ہے

اَبْ

یعنی الف زبر ب ساکن = اب

ایسا متحرک حرف یعنی جس پر زبر ہو یا زیر ہو

 یا پیش کا نشان ہو اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف نہیں مل رہا تو اس کا عدد

مقرر کیا تھا ہم نے ایک یعنی 1

 مگر ایسا حرف جس پر زبر ہو ، زیر ہو یا پیش ہو مگر اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف

مل رہا تو اس کا عدد ہم نے مقرر کیا تھا دو یعنی 2

 اگر اس لفظ کی آواز پر غور کریں تو الف کے ساتھ ب کی آواز مل کر اب کی آواز نکل

رہی ہے

یعنی الف پر زبر تو ہے مگر اس کے ساتھ ب ساکن کی آواز مل رہی ہے

 یہ سمجھیں کہ الف جس پر زبر کا نشان ہے اس کے ساتھ ایک ساکن حرف ب مل

رہا ہے لہذا ہم اس پورے لفظ کو دو کے عدد سے ظاہر کریں گے

لہذا

اَ بْ کی تقطیع عدد میں ہم یوں کریں گے

اَبْ= 2

اگر اَبْ میں الف پر زبر کی بجائے الف کے نیچے زیر ہوتی یا الف کے اوپر پیش

ہوتی تو ؟

 چونکہ ہم نے اوپر پڑھا ہے کہ کسی بھی حرف پر اگر زبر ہو یا نیچے زیر ہو یا اوپر

 پیش ہو اس کو ہم متحرک کہتے ہیں اس لیے اگر اَبْ کی الف کے نیچے زیر ہوتی یا

پیش ہوتی تو پھر بھی ساکن حرف کے ساتھ مل کر  اس کا عدد ہم دو یعنی 2 لگاتے کیوں کہ پہلے متحرک حرف کے

ساتھ ایک ساکن حرف مل رہا ہے اس لیے تقطیع میں ہم اس کا عدد  2 لگائیں گے۔

 اب ایسے الفاظ دیکھتے ہیں جن کے شروع میں دو متحرک اور تیسرا ساکن حرف آتا

 ہے ان کی تقطیع کیسے کریں گے۔ یعنی ایسے شروع کے دو حروف جن پر زبر، زیر

 یا پیش ہو اور ان کے درمیان تو کوئی ساکن نہ ہو مگر آخری حرف ساکن ہو یعنی اس

پر جزم کا نشان ہو۔

مثال:-

سَزَاْ

اب اس لفظ کو دیکھیں

 شروع میں دو حروف ایسے ہیں جن پر زبر کا نشان ہے مگر ان کے درمیان کوئی ایسا

 حرف نہیں جس پر جزم کا نشان ہو اور تیسرا حرف دیکھیں الف ہے جس پر جزم کا

 نشان ہے یعنی اس لفظ میں صرف ایک ساکن ہے وہ بھی آخر میں تو اس کی

 تقطیع کیسے کریں گے۔

اس لیے کہ ہم نے پڑھا ہے کہ ایسا حرف جس پر زبر ہو یا جس کے نیچے زیر

 ہو یا جس پر پیش ہو اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا تو تب ہم اس کو

عدد 11 سے ظاہر کریں گے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال

حرف مل رہا ہے تو اس کو عدد 2 سے ظاہر کریں گے۔

اب دیکھیں پہلے حرف پر زبر ہے

اس کے آگے کوئی ساکن نہیں بلکہ اگلا حرف  متحرک ہے یعنی اس پر زبر کا

نشان ہے تو؟

اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟

اس لفظ کو ہم توڑ کر دیکھتے ہیں

س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زا

 یعنی ہم نے ایسا متحرک جس پر زبر تھی اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف نہیں تھا

اس کو الگ لکھ دیا

 اور ایسا متحرک جس پر زبر کا نشان تھا مگر اس کے ساتھ ایک ساکن حرف بھی مل

کر آواز دے رہا ہے تو اس کو ایک ساتھ لکھ دیا

تو اس کی شکل کیا بنی؟

س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زا

اب اس کو اعداد لگاتے ہیں 1  2

یعنی ایک ایسا حرف جس کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا تھا اور ہم نے اسے

الگ کر کے لکھا اس کو عدد ایک 1 سے ظاہر کیا

 اور جس متحرک حرف کے ساتھ ایک ساکن حرف مل رہا تھا اس کو عدد 2 سے ظاہر

کر دیا۔

 دوستو کسی بھی شعر کی تقطیع کے عمل میں صرف یہی دو اعداد کام کریں گے

یعنی 1 اور 2

اب یہ لفظ دیکھتے ہیں اس کی تقطیع کیسے ہوگی

کارکن :- ک زبر الف کا ر موقوف ک پیش ن ….. ” کارکُن ”  کَا ر ، ک پر زبر ہے الف پر جزم ہے ک متحرک ا ساکن کے ساتھ مل کر دو حرفی بنا اسے ظاہر کرتے ہیں 2 سے…. پھر ر پر جزم ہے یہ اکیلا حرف ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرا حرف ملا نہیں ہے اس لئے اس اکیلے حرف کو یک حرفی 1 سے ظاہر کریں گے .کُن کے ک پر پیش ہے یہ متحرک ہوا اور ن پر جزم ہے اس لئے نون ساکن ہے ایک متحرک ایک ساکن مل کر بنے کُن اسے ہم ظاہر کریں گے 2 سے 

 اس لحاظ سے کارکُن کا وزن فاعلن کے برابر ہوا اسے ہم عدد سےظاہر کریں گے 2 1 2

دوستو ایک اہم بات یاد رکھیں کسی لفظ کے آخر میں کوئی ایسا ساکن حرف رہ

 جائے جس کے ملنے کے لیے کوئی متحرک حرف نہ باقی بچے یعنی کوئی زیر زبر

پیش والا حرف باقی نہ بچے اسے ہم عدد 1 سے ظاہر کریں گے 

مثال :- ایک لفظ دیکھیں

اَنْدَاْزْ

 اس لفظ کوبغور دیکھیں تو آخر میں دو ساکن حروف نظر آرہے ہوں گے

 اس کا مطلب ہے کہ آخری والا ساکن حرف اکیلا رہ گیاہے اور پیچھے کوئی ایسا

متحرک یعنی زبر زیر پیش وال کوئی حرف باقی نہیں رہا ۔

چیک کر کے دیکھتے ہیں

لفظ چونکہ بڑا ہے اس لیے اس کو پہلے توڑتے ہیں

اَنْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دَاْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زْ

 اب دیکھیں تو آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ ہم نے ان کو کونسے کونسے

عدد الاٹ کرنے ہیں

چلو الاٹ کرتے ہیں۔

اَنْ = 2

دَاْ = 2

22 الاٹ ہوگئے کیوں کہ ان میں سے ہر ایک متحرک کے ساتھ ، اب یہاں تک تو عدد 2

کوئی نہ کوئی ساکن مل رہا تھا

اب آخر میں ایک حرف ز بچا جس پر جزم کا نشان ہے لہذا اس کو 

عدد 1 الاٹ کریں گے

زْ= 1

یوں اس کی تقطیع کو ایک ساتھ لکھیں تو یوں ہوگی۔

اَنْدَاْزْ=مفعول … مف عو ل 2 2 1

 دوستو ایک بات کو اچھی طرح یاد رکھیں کسی بھی بڑے لفظ کو توڑتے وقت ہمیشہ

22 کے عدد کے حساب سے توڑیں گے۔شاعری میں اس کو سبب خفیف کہتے ہیں

 سبب خفیف ایسے لفظ کو تقطیع میں کہیں گے جس کا پہلا حرف متحرک یعنی

 زبر،زیر یا پیش والا ہو اور اس کے ساتھ لازمی کوئی جزم کے نشان والا یعنی ساکن

حرف مل رہا ہو اور اس کو عدد 22 سے ظاہر کریں گے .

امید ہے تقطیع کا یہ آسان طریقہ آپ سمجھ پائے ہوں گے۔ میں نے کوشش کی ہے

 کہ علم عروض میں روایتی یا اصطلاحی لفظوں کو کم استعمال کیا جائے ۔ تاکہ شعر کا

 بنیادی مسئلہ ” وزن ” کیا ہے آسانی سے سمجھا جا سکے۔

نوٹ …… 

 ایک سادہ اصول یہ بھی یاد رکھیں کہ عربی ، فارسی کا آخری لفظ نہیں گرایا جاتا

یہ سہولت صرف ہندی ( سنسکرت) یا دیگر زبانوں کے الفاظ کیلئے دی گئی ہے .اردو چونکہ مختلف زبانوں سے مل کر بنی ہے اس لئے اس میں شامل عربی اور فارسی کے الفاظ کو آپ نہیں گرا سکتے .البتہ دوسری زبانوں کے الفاط کو گرا سکتے ہیں . جیسےہندی کا لفظ پیار ( پار ) یہ ( فاع یا فِعْل 2 1) پر باندھا جاتا ہے

اسی طرح لفظ دھیان کو بھی دا ن ( فاع یا فِعْل 2 11) پر باندھا جاتا ———————————————————————————————————————-

 گرائے جانے والے حروف پر سوال کیا جاتا ہے کہ حرف گرائے جانے کی وجہ کیا ہے

 یہ جاننے کے لئے دیکھئے ۔۔۔۔ ایک وہ جن کا گرانا لازمی ہے اور ایک وہ جو مرضی سے گرائے جاتے ہیں

جو حروف حذف کیے جاتے ہیں انکی دو اقسام یا صورتیں ہیں۔ پہلی صورت وہ جن کے بارے میں طے ہے کہ انکا کوئی وزن نہیں ہے اور یہ ہر صورت میں حذف ہو جاتے ہیں، جیسے

– نون غنہ (کوئی وزن نہیں رکھتا)

 – نونِ مخلوط، یہ نون ہندی / اردو الفاظ میں ہوتا ہے اور کوئی وزن نہیں رکھتا جیسے اندھیر، اندھیرا، اندھیری وغیرہ اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ میں۔

 – واؤ معدولہ جیسے خواب (خاب)، خود (خد)، خواہش (خاہش) وغیرہ۔

– دو چشمی ھ، ہندی الفاظ میں جیسے ابھی، مجھے وغیرہ۔

 – یائے مخلوط ہندی / اردو الفاظ میں جیسے دھیان اور پیار کا وزن ایک ہی ہے ۔ پیار (تقطیع میں یہ پار گنا جاتا ہے)، پیارے (پارے)، کیوں (کوں)، کیا (کا) وغیرہ۔

 – ت، صرف ان فارسی الاصل الفاظ میں جن میں پے در پے تین ساکن حروف آ جائیں اور سب سے آخر میں ت ساکن ہو، جیسے دوست، گوشت، پوست، کیست، نیست، چیست، برداشت، پرداخت وغیرہ ان سب الفاظ کی آخری ت کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ت صرف وہاں حذف ہوتی ہے جہاں یہ خود بھی ساکن ہو اس سے پہلے کم از کم دو حروف ساکن ہوں۔ موت، دست یا است وغیرہ میں آخری ت حذف نہیں ہو سکتی، اسطرح دوستاں میں ت متحرک ہو گئی ہے سو یہاں بھی حذف نہیں ہو سکتی۔

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شاعر اپنی مرضی سے کسی لفظ کو گرا دے، یہ گرنے والے حروف عموماً حرفِ علت (الف، واؤ، یا) ہوتے ہیں اور الفاظ کے آخر میں ہوتے ہیں اور زیادہ تر ہندی / اردو الفاظ میں ہوتے ہیں۔ جیسے کا، کو، کے، تھا، تھے، تھی وغیرہ۔ اسی طرح ہائے ہوز (ہ) کو بھی بلا تکلف گرایا جاتا ہے۔ اس صورت میں پڑھنے والے یا تقطیع کرنے والے خود ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں شاعر نے کوئی لفظ گرایا ہے یا اسے سالم رکھا ہے۔

تحریر وتحقیق

تاج محمد خان

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں