نظم اردو کا عروض فارسی اور عربی کے عروض کا تابع ہے۔ لفظ کے کسی جزو پر زور دے کے پڑھنا جس کو انگریزی میں ایکسینٹ کہتے ہیں اردو میں نہیں ہے البتہ قدیم یونانی اور رومی شاعری کی طرح اردو میں بھی حروف علت کی آوازیں کھینچ کر پڑھی جاتی ہیں اور اس کو اشباع کہتے ہیں نظم اردو میں ردیف اور قافیہ بہت ضروری چیز ہے مروجہ بحریں انیس ہیں جن میں سے بعض عربی کے لئے مخصوص ہیں اور بعض میں اتنی ترمیم ہو گئی ہے اور ان کی صورت ایسی بدل گئی ہے کہ وہ بالکل نئی معلوم ہوتی ہیں وزن شعر کے لئے خاص ارکان جو قدما نے مقرر کر دیے تھے ان سے مختلف بحریں قائم ہوگئی ہیں یہ الفاظ عموما عربی الفاظ کے مادے ہوتے ہیں اور انہی سے اشعار کی تقطیع کی جاتی ہے اور بڑی یا چھوٹی بحریں انہی سے قائم ہیں تقطیع کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو وہی رکن ہربار دہرایا جاتا ہے مثلا اولا فعولن فعولن فعولن فعولن چار بار یار کنوں میں ردوبدل ہوتا ہے جیسے مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن تقطیع کے خاص قواعد مقرر ہیں تحریر شدہ حروف کے ساتھ ان حرفوں کا بھی شمار ہوتا ہے جو پڑھے جاتے ہیں وہ تحریر میں نہیں آئے وہ حروف جو پڑھے نہیں جاتے بلکہ محض تحریر میں آتے ہیں تقطیع میں شمار نہیں کیے جاتے الف ممدو ہ شروع لفظ میں جب آتا ہے دو حرف کے برابر اضافت جو کھینچ کے پڑھی جائے ایک حرف کے برابر سمجھی جاتی ہے جن سے تقطیع کی جاتی ہےرکن کہتے ہیں جس کے معنی ستون کے ہیں جس پر عمارت یا خیمہ ہوتا ہے پورےشعر بیت اور نصف شعر کو مصرعہ کہتے ہیں مصرع کے لغوی معنی دروازے کا ایک پٹ ہے نظم کی مختلف قسمیں جو فارسی میں متد اول ہیں وہ جو اردو میں اختیار کی گئی ہیں حسب ذیل ہیں
غزل
غزل اور قصیدہ یہ سب سے زیادہ مشہور اصناف نظم ہیں ان دونوں میں فرق صرف مضمون اور طول کا ہوتا ہے مگر بحور اور ردیف و قافیہ کی پابندی دونوں میں یکساں طور پر ہوتی ہے غزل کا رنگ عموماً عاشقانہ یا صوفیانہ ہوتا ہے اور تعداد اشعار عموما 10 سے 12 تک گو کہ اس کی پابندی بہت کم کی جاتی ہے قصیدہ میں عموماً کسی کی مدح یا ہجوہوتی ہے اور فلسفیانہ رنگ کا بھی ہو سکتا ہے تعداد اشعار عموما کم از کم 25 اور زیادہ سے زیادہ 170 تک مگر اس کی پابندی کون کر سکتا ہے۔
قطعہ
قطعہ کہ جس کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں اور اس کو قصیدے یا غزل کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے تعداد اشعار کم سے کم دو اور زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں پہلے دو مصروں کے لئے ہم قافیہ ہونا ضروری نہیں لیکن اشعار میں قافیہ کی پابندی ہونا لازمی ہے قطعات میں اکثر پندونصائح کے مضمون بیان کئے جاتے ہیں اور مطلب پورا ہو جاتا ہے۔
رباعی
اس میں دو شعری عبید ہوتے ہیں اسی وجہ سے اس کو دوبیتی بھی کہتے ہیں پہلا دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں اور زیادہ تر ایک ہی سی بحروں میں کہی جاتی ہے روبائی کے لیے خاص مضمون کی تخصیص نہیں لیکن چوتھے مصرعے کو عموما موثر معنی خیز اور زور دار ہونا چاہیے۔
مثنوی
یہ صنف رزم و بزم حسن و عشق کے قصے اور افسانہ نگاری کے لئے مخصوص ہے اس میں ہر شعر کے دونوں مصرعوں کو ہم قافیہ ہونا چاہیے ردیف ہو یا نہ ہو تعداد محدود نہیں مثنوی کے لیے عموماً پانچ بحریں مروج ہیں مگر بعض کے نزدیک سات ہیں۔ مستزاد اس کو کہتے ہیں کہ جب ہر مصرعے کے آخر میں کچھ زائد لفظ بڑھائے جائیں اور یہ لفظ اسی بحر میں ہوتے ہیں جو اصلی مصرع کو دو آخری رکنوں کی ہوتی ہے مگر ان کا قافیہ کہیں علیحدہ بھی ہوتا ہے۔
ترجیع بند اور ترکیب بند
ترجیع بند اور ترکیب بند بھی نظم کی قسمیں ہیں ان میں بہت سے بند ہوتے ہیں اور ہر بند میں برابر یا بعض وقت آواز وقت مختلف تعداد ابیات کی ہوتی ہے جو ہم قافیہ ہوتے ہیں اور ہر بند کے آخر میں ایک بات ہوتی ہے جو ہم قافیہ ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے بند کو اوپر کے بند کو نیچے کے بند سے جدا کرتا ہے اور قافیہ میں بھی ان سے علیحدہ ہوتا ہے اگر ہر بند کے بعد ایک ہی بیعت بار بار آئے تو اس کو ترجیح بند کہتے ہیں ورنہ اگر بیت بدلتاجائے تو ترکیب بند کہلاتی ہے ترجیح بند یا ترکیب بند میں تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔
مربع
مربع چو مصرعی نظم کو کہتے ہیں جس میں سب مصرعے ہم قافیہ ہوں ۔
مخمس
میں بجائے چار کے پانچ مصرعے ہوتے ہیں پانچویں مصر عےکا قافیہ بدلا ہوتا ہے اور باقی صورت مربع کی سی ہے۔
مسدس
مسدس کی شکل بھی قریب قریب ایسی ہی ہے فرق اتنا ہے کہ پہلے چار مصرعے یا دو بیت ہم قافیہ اور باقی دو مصرعے علحدہ ہوتے ہیں ان کے علاوہ دیگر اصنافِ سخن میں مسبع وغیرہ بھی اسی طرز کے ہیں۔
مُسَمَّط
مُسَمَّط کے معنی موتی پرونے کے ہیں مگر اصناف سخن میں ایسی نظم کو کہتے ہیں جو بندوں پر مشتمل ہو مگر ان بندوں میں متحد الاوزان اور متحد القوافی مصرعے ہوں اور ہر بند کا مصرعہ آخر پہلے بند کا تابع ہو۔
مُسَمَّط کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
ہر بند کے تین مصرعے ہوں تو مَثَلَّث،
چار مصرعے ہوں تو مُرَبَّع،
پانچ مصرعے ہوں تو مُخَمَّس،
چھ مصرعے ہوں تو مُسَدَّس،
سات مصرعے ہوں تو مُسَبَّع،
آٹھ مصرعے ہوں تو مثمن،
نو مصرعے ہوں تو مُتَسَّع اور
دس مصرعے ہوں تو مُعَشَّر کہتے ہیں۔
واسوخت
نظم کی وہ قسم ہے جس میں عاشق اپنے معشوق کی بے وفائی ظلم و ستم رقیب کے ساتھ محبت اور جدائی کی تکلیف و مصیبت کی شکایتیں کرتا ہے گویا معشوق کو دھمکاتا ہے کہ اگر اس کا طرز تغافل اور ستم شعار یاں اس طرح باقی رہی تو پھر اس کے ہاتھ سے عنان صبر چھوٹ جائےگی اور معشوق سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔
اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات