اردو کے مصمتے(Urdu Consonants)

اردو کے مصمتے(Urdu Consonants)

اردو مصمتوں کی تاریخ نہایت دِل چسپ ہے جب کہ مصوتے خالِص آریائی ہیں۔ مصمتوں میں ہندی، فارسی اور عربی آوازوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ ان آوازوں کو حسبِ ذیل مرکبات میں پیش کیاجاسکتا ہے:

          ۱۔ خالِص ہندی آوازیں : بھ۔ پھ۔ تھ۔ ٹھ۔ جھ۔ چھ۔ کھ۔ گھ۔ دھ۔ ڈھ۔ ڑھ۔ ٹ۔ ڈ۔ ڑ۔

          ۲۔ خالِص فارسی: ژ۔

          ۳۔ خالِص عربی: ق۔

          ۴۔ ہندی فارسی مشترک : ب۔ پ۔ ت۔ ج۔ چ۔ د۔ ر۔ س۔ ش۔ ک۔ گ۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔

          ۵۔ ہندی عربی مشترک : ب۔ ت۔ ج۔ د۔ ر۔ س۔ ش۔ ک۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔

          ۶۔ فارسی عربی مشترک : ب۔ ت۔ ج۔ خ۔ د۔ ر۔ ز۔ س۔ ش۔ غ۔ ف۔ ک۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔

          ۷۔ ہندی فارسی عربی مشترک : ب۔ ت۔ ج۔ د۔ ر۔ س۔ ش۔ ک۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔

لیکن اردو رسمِ خط میں اس سے زیادہ حروف پائے جاتے ہیں ، مثلاً: ذ۔ ض۔ ظ۔ ط۔ ث۔ ص، وغیرہ۔

یہ تمام حرف ہیں صَوت نہیں۔ اردو رسمِ خط کے لیے ایک طرح سے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ عربی، فارسی لِسانی روایت کی دھاک ابھی تک اسی طرح قائم ہے کہ اصلاح کی تمام کوشِشوں کے باوجود ان سے چُھٹکارا نہیں مِل سکاہے۔ صوتیاتی نقطۂ نظر سے اردو کی اصوات کو حسبِ ذیل طور پر مرتب کیا جاسکتا ہے:

اردو کے مصمتے

 

دولبی

دندانی

معکوسی

حنکی

غشائی

لہاتی

(کوے کی)

 

غیر مسموع

پ

ت

ٹ

چ

ک

ق

بندشی (اسپھوٹ)

ہاکاری

پھ

تھ

ٹھ

چھ

کھ

 

 

مسموع

ب

د

ڈ

ج

گ

 

 

ہاکاری

بھ

دھ

ڈھ

جھ

گھ

 

انفی (ناک کی)

مسموع

م

ن

 

 

چستانی (رگڑالو)

غیر مسموع

ف

س

 

ش

خ

ہ

یا صفیری

مسموع

و

ز

 

(ژ)

غ

 

تالیکا

مسموع

 

ر

 

پہلوئی

مسموع

 ل

تھپک دار

مسموع

 

ڑ

 

مسموع (ہاکار)

 

ڑھ

 

نیم مصوتہ

 

 ی

 

اس طرح اردو کے کُل مصمتے ۳۷ ہوتے ہیں (مقابلہ کیجئے تعدادِ حروف سے)۔ ان میں سے (ژ) سے مرکب الفاظ اس قدر کم ہیں کہ اس کا اخراج کیاجاسکتا ہے۔ صرف چند لفظ ہیں اژدحام، اژدہا، جن کی دوسری شکل ازدحام، ازدہا بھی رائج ہے۔

(لیکن مژہ اور مژگاں کا کیا کیجئے گا؟ اور خاص طور پر غالبؔ کی ’’مژ ہ ہائے دراز‘‘ کا۔ صرف ایک لفظ کی خاطر اسے آپ اردو صوتیات میں رکھنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں )۔

یہاں میں اردو رسمِ خط کی کم مایگی کی جانب اشارہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں ، یعنی ہاکار (ہائے مخلوط والی) آوازوں کی جانب۔ یہ آوازیں اپنی وسعت اور تقسیم کے باعث اردو کے نظامِ صوت کی مفرد آوازیں ہیں۔ ہندی رسمِ خط میں ان کے لیے علاحدہ حروف بھی قائم کیے گئے ہیں لیکن اردو حروفِ تہجی میں یہ مرکب آوازیں تصوّر کی گئی ہیں اور اِسی بنا پر اردو تدریس کا یہ انداز ہنوز جاری ہے کہ گ ھ ر زبر گھر، ب ھ زبر بھر جو صوتی نقطۂ نظر سے مہمل ہے کہ مبنی ہے حرف کے تصوّر پر_

مصمتوں کے سِلسلے میں اُن زائد حروف کا ذکر بھی ضروری ہے جو عربی سے لیے گئے ہیں اور جو ہمارے حروفِ تہجّی اور نظامِ درس کے لیے پیرِ تسمہ پا بنے ہوئے ہیں۔ میری مُراد

ذ۔ ض۔ ظ۔ ط۔ ث۔ ص۔ ح، وغیرہ سے ہے۔

صوتی نقطۂ نظر سے یہ سب مُردہ لاشیں ہیں ، جسے اردو رسمِ خط اٹھائے ہوئے ہے، صرف اِس لیے کہ ہمارا لِسانی رشتہ عربی سے ثابت رہے۔

          /ع/ کی شکل ذرا مختلف ہے۔ ہر چند یہ قریب المخرج مصوتے میں ضم ہو جاتا ہے، لیکن بعض جگہ ایک صوتی کھٹک بن کر اپنے اثرات ہمارے لہجے میں چھوڑ جاتا ہے۔ عام طور پر معلوم کو مالوم ، عرب کو اَرب اور مَنع کو مَناہی بولا جاتا ہے( قطع نظر چند عربی دانوں کے)، لیکن اِس قسم کے مقامات پردوسری صوت پائی جاتی ہے، مثلاً شعرا، (مسیحِ) موعود، جہاں / ع/ ایک مخصوص اعراب کی شکل میں قائم رہتا ہے۔

عربی فارسی کے جو مصمتے اُردو صوتیاتی نظام کا جزو بن گئے ہیں ، حسبِ ذیل ہیں:

ف۔ ز۔ خ۔ غ۔ ق۔

/ق/ کو چھوڑ کر یہ بیشتر رگڑ دار آوازوں کی صَف میں آتے ہیں۔ ان کا اثر اُردو شاعری کے صَوتی آہنگ پر کافی پڑا ہے۔ اور جو لوگ آہنگِ شعر کے اُصولوں کا مطالعہ کرتے ہیں اُن کے لیے یہ ایک علحٰدہ دلچسپ مسٔلہ ہے۔

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں