امراؤ جان ادا ایک ذاتی زاویہ

 

امراؤ جان ادا

“ایک ذاتی
زاویہ”

صاحبانِ ادب

میں یہ اچھی طرح سے سمجھتا  ہوں  کہ
فکشن میں آپ  کہیں سے کہیں جا سکتے   ہیں
۔  لیلی ۔۔۔۔ مجنو ں بن
سکتی ہے مجنوں ۔۔لیلی ہو سکتا ہے ۔ مگر جب ہم کسی بھی تحریر کو  پڑ ھتے  
ہیں  تو اسے کسی صنف کے خانے میں
رکھتے ہیں ۔ ناول  افسانوی  کر داروں پر مشتمل ہو تا ہے ۔ ناول  اگر “آپ بیتی” ہے  تو کردار حقیقی ہو نگے  ۔ “رسوا” نے آپ بیتی کے کرداروں کو
افسانوی کر دیا ۔ یہ ناول   انتہائی اْجلت
میں لکھا گیا ہے۔۔”اْمراو جان ادا” میں کہیں کہیں سقم پایا جاتا
ہے۔  اس ناول میں “امیرن” کااغوا
کم / فرار زیادہ سمجھ میں آتاہے۔ / “امیرن” کوئی
اور ہے  ۔ “اْمراو جان  “کوئی اور ہے  ۔  اور
“ادا” کوئی اور ہے ۔/ دلاور خاں اشتہاری ہے / تو    فردِ جرم کا کوئی زکر نہیں/۔  / کبوتر کی چوری ،اشرفیوں کی چوری/ یا /  بردہ 
فروشی پر پھانسی نہیں ہوتی۔

امیرن کی منگنی / ناول  کے مطابق 
9 برس کی عْمر میں ہوئی اب شادی کا ما حول ہے/۔ امیرن کا اگر  اغوا   مان
بھی  لیا  جائے / تو 
عْمر کسی طرح بھی 13 یا 14  سے کم
نہیں بنتی/ ناول میں “اْمراو جان ادا” اپنے پہلے مْجرے کی  بابت بیان کر رہیں ہیں / کہ / میرا   سنِ  
کوئی  چودہ برس کا ہوگا۔ مْجرائی
رقص کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی جاتی ہے یہ راتوں رات نہیں سیکھا جاتا ۔/ جب کہ کتھک
کے لیئے تو روایت ہے کہ  7 برس کی عمْر سے
سیکھا  جاتا ہے۔/

“امیرن “کی ابتدائی
تعلیم واضح نہیں ہے۔ جبکہ “امراوجان ادا ” گْلستان بْوستان پڑھ رہی
ہیں۔۔/ شاعرہ ہیں۔/ ذاکرہ  ہیں۔/ بیٹھک کی
گا ئیکہ  ہیں۔

گزشتہ لکھنو میں ڈیرہ دار طوائفوں
کے  کوٹھوں پر اْصول  بڑی سختی سے 
برتے جاتے تھے  / نتھ اترائی کی رسم
جب تک انجام نہ پا جائے عمل دار اور نوچیاں آس 
پاس رہتے تھے  ۔ ایک باقائدہ عملہ
موجود رہتا تھا  ۔ ناول کا کردار “گوہر
مرزا” برسات کے موسم میں “امراو جان ادا” پر برس کر چلا جاتا ہے
اور کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ وہاں “امیرن” کے اغوا کا کو ئی ثبوت نہیں ہے۔
ماننا  پڑیگا   کہ یہ سب “رْسوا ” کے جادوئی  اسلوب  کا
کرشمہ نہیں تو  اور کیا ہے۔

1896 میں لکھنو کے بازار حْسن میں
“امراوجان” کے نام سے ایک زندہ طوائف موجود تھی  بنارس میں مقبرہ موجود ہے ۔  وہ “ادا “تھی ۔ یا۔  نہیں ۔ تحقیق باقی ہے۔ 1857 کے بعد
بیگماتی   مشاعروں  میں  
ایک “ادا ” نام کی شاعرہ  موجود تھیں مگر کوئی مْرتب دیوان   شاعری
کا  نظر سے نہیں گزرا ۔  ڈاکٹر احسن فاروقی کا کہنا ہے۔  “امراوجان ادا  ” ناول   ہادی
رسوا کی زندگی کا ایک فیمیل ایڈیشن ہے ۔  مجھے
اس سے اتفاق ہے۔ یہ بھی غور طلب بات ہے کی یہ ناول   1857 غدر سے پہلے کے کردار  پیش کر رہاہے 
یا  غدر  کے  بعد
کے  کردار “اْمراوجان ادا  ” ایک 
آپ بیتی  ناول کے  ساتھ ساتھ  ایک مکمل ڈرامہ بھی ہے اس لئیے کے  اس ناول کا بنیادی جوہر اس کے کردار  ہیں۔ مکالموں 
سے ساری گفتگوں آگے بڑھتی ہے  ڈرامے
میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ باقول  ڈاکٹر
احسن فاروقی۔۔ ہادی  رْسوا ”
اْمراوجان ادا” مین اتنے  گم تھے  کے گویا وہ انہی کی زندگی تھی جو انہوں نے ایک
عورت کے روپ میں  پیش کی۔
میرا  زاتی زاویہ 
جو کہ کچھ دلیل کے ساتھ بھی ہے  اگر
آپ اختلا ف کر نا چا ھئیں تو اس کا حق آپ کو حاصل ہے۔

شْکریہ

مْجیب قْریْشی




اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

2 تبصرے “امراؤ جان ادا ایک ذاتی زاویہ

اپنا تبصرہ بھیجیں