اکرام الحق نعت،منقبت،نظم،غزل،گیت

 اکرام الحق: نعت،منقبت،نظم،غزل،گیت

انتخاب و پیشکش:افشاں سحر

***** فتنے ***** (نظم)

دیکھے ہیں جس کسی نے بھی فتنے جمال کے 

ملتے نہیں جواب ہیں دل کے سوال کے

گزرے ہیں ماہ و سال ہی اپنے ملال کے

ایسے ہی پھر ترستے ہیں لمحے وصال کے

فتنے ہی سب بنے ہیں اشارے زوال کے 


فتنوں سے جاں چھڑائے تو احساس ہو سکے

دنیا کو ہوش آئے تو احساس ہو سکے

الفت کے گیت گائے تو احساس ہو سکے

اپنا کسی کو پائے تو احساس ہو سکے

فتنے ہی سب بنے ہیں اشارے زوال کے  


جلوے ہیں حسن یار کے فتنے عظیم تر

دیدار بار بار کے فتنے عظیم تر

دولت زمین کار کے فتنے عظیم تر

دشمن پہ دل کی ہار کے فتنے عظیم تر

فتنے ہی سب بنے ہیں اشارے زوال کے 


لگتا ہے لوگ دل کے وفادار ہو گئے

چاہت میں دل کی سارے خطاکار ہو گئے

فتنوں میں جی رہے ہیں اداکار ہو گئے

فتنے بڑھے تو دل کے رضاکار ہو گئے

فتنے ہی سب بنے ہیں اشارے زوال کے 


فتنے کہیں نہیں تھے تو پیکر وفا کے تھے

ایسے کہاں ہیں لوگ جو بندے خدا کے تھے

عالم کی وہ بھلائی میں خادم سدا کے تھے

ہر حال میں اسیر وہ سارے حیا کے تھے

فتنے ہی سب بنے ہیں اشارے زوال کے 


دیکھے ہیں دل کے ایسے کمالات آج کل

فتنوں کی ہو رہی ہیں مدارات آج کل

زن ذر زمین کے ہیں مفادات آج کل 

برپا ہیں پر فتن سے فسادات آج کل

فتنے ہی سب بنے ہیں اشارے زوال کے 


فتنے یوں چھا گئے کہ متانت نہیں رہی

مقصد کی اب لگن میں دیانت نہیں رہی

منزل کو جانچنے کی ذہانت نہیں رہی

اب دل لگی وفا کی امانت نہیں رہی

فتنے ہی سب بنے ہیں اشارے زوال کے 


*** ایم اکرام الحق ***

01 اگست 2021***** غزل *****


مانا کہ نہیں ٹھیک ہے اترانا ہمارا

سرکار ذرا سن تو لو افسانہ ہمارا


آمد سے فقط تیری ہی آباد ہوا ہے

لوگوں کو نہیں یاد تھا میخانہ ہمارا


جب دور بہت آ گئے ہم تیری گلی سے 

تب یاد تجھے آیا گزر جانا ہمارا


اک تیری ادا مار گئی جوش وفا کی

چھلکا ہے بہت زور سے پیمانہ ہمارا


ہر حال میں سنبھال رہے یاد تمہاری

لگتا ہے تجھے تحفہ بھی انجانا ہمارا


ہم چاہے کریں لاکھ جتن بھول نہ پائیں

دل تجھ سے نہیں ہ وتا ہے بیگانہ ہمارا


شکوے تو بہت سارے ہیں کہسار نما حق

جاتا نہیں کردار سے شرمانا ہمارا


*** ایم اکرام الحق ***

01 اگست 2021***** غزل *****


دور جانا نہیں اک ہے وعدہ کیا

ساتھ رہنے کا ہے اب ارادہ کیا


تم نے دھتکار کے مجھ کو تنہا کیا

جب کبھی الفتوں کا اعادہ کیا


زندگی کی چبھن سے اڑی دلکشی

دل کی سوچوں نے ایسا برادہ کیا


تم کو چھوڑا نہیں دلربا جان لے

پیار تم سے ہے از حد زیادہ کیا


اپنا رخ موڑ کر رنجشیں چھوڑ کر

دل محبت کی جانب کشادہ کیا


وقت سے اب ملے گی گواہی تجھے

کس نے کس کی وفا سے افادہ کیا


پیرہن حق کے سب خام ہوتے گئے

دل کے اقرار کو جب لبادہ کیا


*** ایم اکرام الحق ***

02 اگست 2021***** غزل *****


تیری الفت سے وہ آشنا ہو سکے

ایسے چاہو نہ دلبر جدا ہو سکے


ایسی حاصل خدا سے دوا ہو سکے

ہر مرض ہر وبا سے شفا ہو سکے


عاشقی کے سفر میں دغا مت کرو

زندگی میں کہیں تو وفا ہو سکے


اس کی مخلوق سے بس محبت کرو

یوں جیو تم کہ راضی خدا ہو سکے


سوز عالم کے کچھ ضابطے بن سکیں

تا کہ جیون نہ تجھ پر سزا ہو سکے


دل جلانے کی ہمت نہ کرنا کبھی

بات ایسی کرو جو روا ہو سکے


اس زمیں پر صنم عاجزی سے رہو

حسن جیون کی شامل دعا ہو سکے


دل لگانے کی دیکھی ہیں باتیں محض

بات تب ہو کہ حق بھی ادا ہو سکے


*** ایم اکرام الحق ***

02 اگست 2021***** غزل *****


تیری الفت سے وہ آشنا ہو سکے

ایسے چاہو نہ دلبر جدا ہو سکے


ایسی حاصل خدا سے دوا ہو سکے

ہر مرض ہر وبا سے شفا ہو سکے


عاشقی کے سفر میں دغا مت کرو

زندگی میں کہیں تو وفا ہو سکے


اس کی مخلوق سے بس محبت کرو

یوں جیو تم کہ راضی خدا ہو سکے


سوز عالم کے کچھ ضابطے بن سکیں

تا کہ جیون نہ تجھ پر سزا ہو سکے


دل جلانے کی ہمت نہ کرنا کبھی

بات ایسی کرو جو روا ہو سکے


اس زمیں پر صنم عاجزی سے رہو

حسن جیون کی شامل دعا ہو سکے


دل لگانے کی دیکھی ہیں باتیں محض

بات تب ہو کہ حق بھی ادا ہو سکے


*** ایم اکرام الحق ***

02 اگست 2021

***** غزل *****


ہر دور میں ہر شخص کا کردار الگ ہے

سوچوں میں نئی نسل کا معیار الگ ہے


سب چال چلن بول روش کار نئی ہے

چاہت کے نئے ڈھنگ ہیں اصرار الگ ہے


بدلی ہے نئی سوچ کہ سانجھا نہ رہا کچھ

اب ہر سو مکانوں کی بھی دیوار الگ ہے


دیکھے ہیں حکومت کے بھی اطوار نرالے 

اس دور کے شاہوں کا بھی دربار الگ ہے


مجبور بڑے جو ہوئے اولاد کے ہاتھوں

ایسے ہی جواں خون بھی بیزار الگ ہے


مذہب بھی سیاست بھی ہیں اغراض سے لپٹے

خلقت بھی نئے دور میں لاچار الگ ہے


دیکھے ہیں جہانوں میں گلی کوچے بہت حق

اپنی تو جنم بھومی کا بازار الگ ہے


*** ایم اکرام الحق ***

08 اگست 2021***** غزل *****


ہونا ہے اتنا کامل خدا کے لئے

دور ہو مجھ سے باطل خدا کے لئے


کر دے نا اتنا قابل خدا کے لئے

ہو سکوں میں بھی فاضل خدا کے لئے


تیری راہوں سے ہٹنا نہیں ہے مجھے

ایسے کرنا نہ کاہل خدا کے لئے


زندگی میں تری ملتمس ہوں صنم

کر لو نا مجھ کو شامل خدا کے لئے


دنیا کی خیر کو میرے مالک بنا

دریا کا مجھ کو ساحل خدا کے لئے


بندگی میں وفادار رہنے کا سبب

سب رہے مجھ کو حاصل خدا کے لئے


نکلے ہو راستے پر وفا کے اگر

پھر کرو تم نہ تامل خدا کے لئے


اتنی ہے التجا میرا ہو نام حق

نیک بندوں میں داخل خدا کے لئے


*** ایم اکرام الحق ***

08 اگست 2021***** غزل *****


دل محبت سے بھر گیا ہوگا

اس لیے وہ بچھڑ گیا ہوگا


اتنا مصروف دیکھ کر مجھ کو

اس کا لہجہ بپھر گیا ہوگا


اس محبت کو وہ بچانے کو

آج کس کس کے گھر گیا ہوگا


دل کو سنبھال جب نہ وہ پایا

دل کی حالت سے ڈر گیا ہوگا


اس نے وعدے کیے نبھانے کے

پھر وہ کیسے مکر گیا ہوگا


جس کو چاہا اسے خبر کرتے

حال سے بے خبر گیا ہوگا


ہر سو خبریں ہیں اس کی آمد کی

جانے کس کس نگر گیا ہوگا


بات کرنا نہیں گوارا حق

دل سے یکسر اتر گیا ہوگا


*** ایم اکرام الحق ***

06 اگست 2021***** غزل *****


ہم نشینوں سے فیض پاتے ہیں

درد الفت کا حظ اٹھاتے ہیں


روٹھ جائیں تو بھاگ جاتے ہیں

مان جائیں تو دل لبھاتے ہیں


پاس اتنے ہی آتے جاتے ہیں

دور جتنا ہمیں ہٹاتے ہیں


بھول پاتے نہیں محبت کو

کشتیاں جب کبھی جلاتے ہیں


لاکھ کوشش کریں بھلانے کی

بستیاں دل کی پھر بساتے ہیں


بجلیاں راز کن فکاں کی حق

شاخ نازک پہ کیوں گراتے ہیں


سوز عالم کو جاں بناتے ہیں

جب محبت کی سمت جاتے ہیں


سامنے جب کبھی وہ آتے ہیں

حادثوں سے ہمیں ڈراتے ہیں


پاس اتنے ہی آتے جاتے ہیں

دور جتنا ہمیں ہٹاتے ہیں


کتنی زرخیز مسکراہٹ تک

باقی دنیا پہ وہ لٹاتے ہیں


جب وہ کرتے ہیں پیار کے دعوے

پھر وہ کیسے ہمیں رلاتے ہیں


کچھ نہیں وہ لحاظ رکھتے حق

کتنی باتیں ہمیں سناتے ہیں


*** ایم اکرام الحق ***

03 اگست 2021*** نعت مبارکﷺ ***


ملی ہے رنج و الم کی دوا مدینے میں 

مرے حضورﷺ ہیں جلوہ نما مدینے میں


کرم کا خاص ہے گوہر ملا مدینے میں

غلام ہو گئے سارے فدا مدینے میں


ہے منفرد سی درخشاں ضیا مدینے میں

ہوئی نوید مسرت عطا مدینے میں


مہک سے جس کی معطر فضائیں دیکھیں

چلی ہے خوشبوئے من کی ہوا مدینے میں


جھلک تلک نہیں اس کی نظام دنیا میں

دکھائی شان جو خیر الوریﷺ مدینے میں 


حزین گرچہ سویرے ملے ہیں جیون میں

بہت مرید یہ فرحاں رہا مدینے میں


ہیں سارے ہیچ نظارے بھی سامنے جس کے

کرم کی ایسی ہے پائی فضا مدینے میں


عظیم تر ہے محمدﷺ کی شان عالم حق

ہے رازدان شفاعت ملا مدینے میں


*** ایم اکرام الحق ***

03 اگست 2021

*** منقبت ***


اس خاک پر ہے آج بھی ہیبت حسین کی

دیکھی ہے کربلا نے شجاعت حسین کی


عالم پہ راج کرتی ہے چاہت حسین کی 

دوزخ میں بھیج دے گی عداوت حسین کی


کربل میں جس نے دیکھی خطابت حسین کی

طاری رہی ہے اس پہ جلالت حسین کی


ہر شخص نے ہے مانی قیادت حسین کی

سردار جب حسین ہیں جنت حسین کی


کرب و بلا کی شان ہے عظمت حسین کی

ہر شخص سے ہے بالا عبادت حسین کی


سارے یزید مل کے بھی ہوئے نہ سرخرو

زندہ ہمارے دل میں ہے الفت حسین کی


اتنی عظیم تر ہے شہادت حسین کی

مقبول ہے خدا کو ولایت حسین کی


ہر قوم لعن طعن ہے کرتی یزید پر

ہر قوم پر رہی ہے عنایت حسین کی


بیچا نہ کربلا کو مفادات کے لیے 

دیکھی جہان بھر نے قناعت حسین کی


شامل ہوئے شجر بھی غلاموں میں آپ کے

تسلیم کی سبھی نے صداقت حسین کی


تدبیر میں کوئی نہ کہیں دیکھا آپ سا

مانی ہے ہر کسی نے فراست حسین کی


ہر شان سے بھی پہلے گواہی یہی ہے حق

ملتی حضور سے ہے شباہت حسین کی


*** ایم اکرام الحق ***

14 اگست 2021***** غزل *****


تیری صورت ہی روبرو ہے ابھی

دل کی تم سے ہی گفتگو یے ابھی


دل کا دلدار خوبرو ہے ابھی

اس طلسم کی آبرو ہے ابھی


دل میں احساس تیری الفت کا

جا بہ جا میرے چار سو ہے ابھی


جاں بھی میری نہیں سلامت ہے

دل بھی میرا لہو لہو ہے ابھی


خوف دل کو نہیں جدائی کا

دل کو جینے کی آرزو ہے ابھی


ذکر جاری زباں پہ تیرا ہے

دل میں بھی تیری جستجو ہے ابھی


دل کے رستے سے تم تھے گزرے کبھی 

دل کی گلیوں میں مشکبو ہے ابھی


لب پہ میرے ہے ورد رہتا حق

دل بھی میرا ہی باوضو ہے ابھی


*** ایم اکرام الحق ***

14 اگست 2021***** غزل *****


الجھنوں سے ذرا ہٹا خود کو

مشکلوں میں نہیں بسا خود کو


حسن دنیا پہ مت لٹا خود کو

رب کے رستے پہ اب چلا خود کو


اپنی نظروں میں مت گرا خود کو

دل سے اپنا ذرا بنا خود کو


چھوڑ ماضی کے سارے قصوں کو

فکر فردا سے اب چھڑا خود کو


جن سے مقصد ملے حیاتی کا

ایسی راہوں پہ اب بھگا خود کو


روک دیتا ہے جو عبادت سے

اپنے شیطان سے بچا خود کو


جن کو تیری نہ کچھ بھی چاہت ہے

ان کی خاطر نہ کر فنا خود کو


جن کی فطرت ہی چھوڑ جانا تھی

ان کی فرقت میں مت جلا خود کو


پہلے منزل تلاش کر حق کی

ایسے ویسے نہیں تھکا خود کو


*** ایم اکرام الحق ***

10 اگست 2021*** منقبت ***


جو اہل بیت کی ایمان پر شہادت ہے

مرے حضورﷺ کی امت پہ خاص رحمت ہے


جو کٹ مرا نہیں آلِ نبیﷺ کے قدموں میں

تڑپتے دل کی خدارا یہی ندامت ہے


شہید سارے ہیں کربل کے محترم لوگو

کہ شان آل نبی ﷺ کی بہت فضیلت ہے


کہاں کہاں سے برستے تھے تیر کربل میں

مگر حسین کے لب پر وہاں تلاوت ہے


کہیں نہ ظلم پہ آواز کو اٹھائیں وہ

یہ خانوادہ علی کی نہیں روایت ہے


سیاہ بخت ہی محروم ہے ولایت سے

نبیﷺ کی آل سے ہر دم وفا ولایت ہے


نظیر اس کی کسی دور میں نہیں ملتی

نبی ﷺ کے دل میں جو حسنین کی محبت ہے


وفا کی راہ پہ مٹنے کی ہے گواہی حق

جو کربلا میں تھی برپا رہی قیامت ہے


*** ایم اکرام الحق ***

12 اگست 2021***** غزل *****


جو بھی کہتا رہا تم کو جذبات میں 

سب ہی شامل ہے میرے بیانات میں


جیتے رہتے ہیں جو لوگ خدشات میں

مل نہ پائے انہیں کچھ بھی سوغات میں


کہنا پڑتا ہے سب کچھ مجھے رو برو

سب خرابی ہے میرے سوالات میں


تم کو مانگا ہے دل سے دعا میں صنم

لکھ دے مالک تجھے آج خیرات میں


سب وہ ملتا نہیں سرکشی میں کبھی

جو ادب کی ہے پایا عنایات میں


درس پایا ہے دل نے خدا سے یہی

سب کھلا دل کی لوگو ملاقات میں


چھوٹ جاتا ہے ذاتی مقاصد میں حق

کیا ملا ہے کبھی کچھ مفادات میں


*** ایم اکرام الحق ***

09 اگست 2021

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں