اکرام الحق کا منتخب کلام

 

 جناب اکرام الحق صاحب پنجاب کے شہر گجرات کی سرزمیں  سے تعلق رکھنے والے اور دیار غیر نیو یارک  کو اپنا مسکن بنانے والے اردو ادب کے یہ سپوت وہاں کی چکا چوند رنگینیوں کو چھوڑ کر بھی ادب کی خدمت میں اس درجہ پیش قدم ہیں کہ ہم ان کو اپنے  درمیان ہی پاتے ہیں ۔

آپ شاعری کی حوالے سے عصر حاضر میں ایک خوبصورت تعارف اور پہچان رکھتے ہیں ۔

آپ نے اپنے ارد گرد کے رنگین ماحول  سے اثر لینے کی بجائے اپنی مٹی اور روایات سے جڑے رہنا زیادہ پسند کیا آپ کے  نعتیہ کلام کا ایک ایک مصرعہ عشق رسول صلی اللہ علیہ کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔

آقاﷺ  کی ساری   دنیا  آقا کی  سب خدائی

آقاﷺ کی شان افضل  کے سب کے سب فدائی

ان   سب کی رفعتوں  کو   میرا   سلام  کہنا

جس جس نے بھی ہے پائی سرکارﷺ تک رسائی

اسی طرح غزل کے میدان میں بھی آپ کو خاص ملکہ حاصل ہے ۔

آپ ایک امید و جستجو کے مسلسل سفر کے تمنائی ہیں ۔ اس کھٹن راہ میں خود کو مستقیم بنانے کے آرزو مند ہیں ۔ اور اپنی تخلیق میں شعور کو پوری طرح ضم کرنے کے فن سے آشنا ہیں ۔ آپ کا شعری سفر مبہم جذبات سے عاری ہے اور منزل کا تعین کرنے میں انھیں کسی دشواری کا سامنا نہیں ۔ 

تری جستجو آج ناکام ہو گی

مجھے راہ حق سے ہٹانے کی خاطر

آپ کا موضوعاتی دائرہ وسیع بھی ہے  اور فنی برتاو کی اہمیت سے باخبر بھی۔ اسلوب کی دلکشی تلاش کرنے کے لئے نہ تو نئی تراکیبیں تراشتے ہیں اور نہ نت نئے الفاظ کی تلاش میں دور تک  جاتے ہیں ۔ بلکہ قریب کے الفاظ سے شعر میں تازگی بھر دیتے ہیں ۔

نظروں کو ہے تلاش محبت میں بس تری

سونی ہے دل کی اب بھی بہاراں ترے بغیر

آپ نے اپنی غزل میں جدید مگر روایتی  اقدار اور روئیے پیش کیئے۔ اور پرانے المیوں کی روشنی میں نئے دور کو پرکھا ۔

پہلے تھا سلسلوں میں بھی پیہم خلوص حق

اس دور میں تو یہ بھی روایت نہیں رہی۔

آپ کی غزل ایک  طرف روایتی عشق کی تلاش میں ہے لیکن زندگی کے عملی پہلووں کی طرف زیادہ گامزن نظر آتی ہے۔آپ کی شاعری میں کھوکھلا پن نہیں بلکہ زندگی کے حقائق پر کڑی گرفت ہے ۔ جو  ایک خواب پرست انسان کو چونکا دینے کے لیئے کافی ہے۔ 

الجھن میں روز گار کی مصروف ہیں بہت

بیٹھے یوں انتظار میں  بے کار بھی نہیں 

آپ نے اپنی آرائش فکر اور فکری لوازمات شعری سے غزل کو آراستہ کیا اور چھوٹے چھوٹے لفظوں میں بڑی دنیا آباد کی۔ اور اپنی ناتمام خواہشات کا رونا رونے کی بجائے بڑی چابکدستی اور ہنر مندی سے اپنے دل کے کونوں میں سجا لیا۔ 

جن حسرتوں کی اپنی نہ تکمیل ہو سکی

ان حسرتوں کو ہم نے دل میں دبا دیا

آپ کی نظر صرف اپنے جگر کے زخموں یا حسن کی کرشمہ سازیوں یا عشق کی ہنگامہ طرازیوں تک محدود نہیں بلکہ آپ نے اپنے ہم جنسوں کا بڑی غیر جانبداری سے مطالعہ کیا۔ فطرت انسانی کے بعض تاریک گوشوں میں بڑی جرات اور بے باکی سے جھانکا اور کئی نفسیاتی الجھنوں پر روشنی ڈالی۔

لگتا باہر سے کتنا ہی نادان ہے

وہ مگر پورا اندر سے شیطان ہے

آپ کے کئی اشعار ایسے ہیں ۔ جن میں سادگی اور شیرینی کی فضا ملتی ہے۔ روشن دنوں کی امید اور واضح منزل کے نشان ملتے ہیں ۔ آپ کے ہاں غم کی کیفیت بھی اضطراری نہیں بلکہ اس میں ایک پرسکون کیفیت ملتی ہے۔

شب کے دلدوز اندھیرے نہ بگاڑیں کچھ بھی

راہ الفت میں بھی اوقات سحر آتے ہیں ۔ 

(زبدہ خان)

غزل ۔۔۔۔۔1

ہم  بھی  چاہت کے گیت گاتے ہیں

دل کی راہیں  بھی ہم سجاتے ہیں

جو  بتانے   سے   راز   کھلتے  ہیں

ایسی  باتیں   بھی  ہم  بتاتے ہیں

ہر  کسی  کو  نہ   تم   کہو  طارق

کشتیاں  سب   کہاں   جلاتے ہیں

ایسی ویسی کہاں ہیں باتیں سب

دل  کے  قصے   ہی  تو  بتاتے ہیں

ہم  کو   پہچان   ہے  رقیبوں  کی

تیر   سب   پر   نہیں  چلاتے ہیں

یاد  رکھتے  ہیں  ہم  خیالوں  کو

ایسے ویسوں کو بھول جاتے ہیں

مار  دیتے   ہیں  عشق  والے  حق

پہلے  روتے  ہیں  پھر  چلاتے ہیں

غزل ۔۔۔۔۔ 2

اپنے دشمن  سے  مل کے  آتے ہیں

راز اس کو  بھی  سب  بتاتے ہیں

درد دے کر  وہ جاں چھڑاتے ہیں

بات    سنتے    نہیں    رلاتے ہیں

مار  دیتے  ہیں  ظلم   ڈھاتے ہیں

اپنے  اپنوں  سے  جب  لڑاتے ہیں

بات کرنی  جنہیں  نہ  آتی  تھی

اب   وہ   باتیں   بہت  بناتے ہیں

جرم کرتے ہیں  عشق  میں  کیسے

کیسے آنکھیں بھی پھر ملاتے ہیں

درد  رکھتے  ہیں  عشق  کا  کیسا

درد  دیتے   ہیں   جب  رلاتے ہیں

کیا  ادا  ہے  یہ  دلبروں  کی  حق

روگ  دیتے   ہیں  دل  جلاتے ہیں

غزل ۔۔۔۔۔ 3

پہلے   دل   کے   دیے  جلاتے ہیں

پھر ستم آنکھ کے وہ ڈھاتے ہیں

اپنی   ساری    ہمیں   سناتے ہیں

ہم   جو   بولیں   تو  تلملاتے ہیں

روٹھتے  ہیں   کبھی   ستاتے ہیں

کیسے    کیسے    وہ   آزماتے ہیں

اپنی   باتیں    کہاں    سناتے ہیں

ان  کی  یادوں  کو   گنگناتے ہیں

روگ  دل  جب  ہمیں  ستاتے ہیں

شعر  کہتے   ہیں   رخ  ہٹاتے ہیں

جن  کو   حالات    مار  دیتے ہیں

وہ  بھی   جیون  چتا جلاتے ہیں

ان کی آنکھوں کی بات کرتے حق

سب  فرشتے  بھی  مسکراتے ہیں

ایم اکرام الحق

غزل  ۔۔۔۔۔ 4

دل میں  کینہ  کہاں  سے لاتے ہیں

خار راہوں  میں  جو  بچھاتے ہیں

سب کو  ایسے ہی  جو ستاتے ہیں

بد  قماشی   نہ   چھوڑ   پاتے ہیں

ایسے جھگڑوں کو جو بڑھاتے ہیں

اپنی فطرت  سے  مات کھاتے ہیں

گالیوں   کو    نہ   روک   پاتے ہیں

آستینیں   بھی  پھر  چڑھاتے ہیں

درد   سہنے   کی   بات  کرتے  ہیں

درد    دیتے     نہ     باز    آتے ہیں

جب  بھی  بازار   میں  نکلتے  ہیں

ہوش  لوگوں   کے   وہ   اڑاتے ہیں

لڑتے   رہنا    نہیں    شرافت   حق

امن    والے     ہی    جگمگاتے ہیں

ایم اکرام الحق

*** غزل ***

بات  اب  تک   ختم  نہیں  سمجھے 

چوٹ کھا کر بھی ہم نہیں سمجھے

کچھ   بھی  کہنا   فضول   لگتا  ہے

میری  چاہت  صنم  نہیں   سمجھے

بات   ساری    ہی   ان  سنی   کردی 

کچھ تو ہوگا  جو تم  نہیں سمجھے

مسکراہٹ    تو   جانچ    لیتے   تھے

پر  کبھی   چشم  نم  نہیں سمجھے 

دور   کر  کے    جو    مار    ڈالا   ہے

اس  کو  کیسے  ستم نہیں سمجھے

وقت  اچھا   تھا   ساتھ   گزرا  حق

ہاں  مگر  میرے  غم  نہیں سمجھے 

*** ایم اکرام الحق ***

*** غزل ***

دشوار     زندگی     کو   بنائے  گی  ایک دن

سوچا نہ تھا  کہ ایسے  ستائے  گی  ایک دن

باتیں وہ  اپنے دل  کی  سنائے  گی  ایک دن

واپس   مجھے   ضرور   بلائے  گی  ایک دن

مانا  کہ  پاس  آ  کے   ہیں  بیٹھے  خفا  خفا

صحبت  یہ  اپنے رنگ  دکھائے  گی  ایک دن

ایسے وہ دور ہوگی  یہ  سوچا نہ  تھا کبھی

کیسے وہ بات  دل کی  چھپائے گی  ایک دن

روتا  ہے  اس  جدائی  میں  گر  آج  میرا دل

دوری  یہی   اسے   بھی  رلائے  گی  ایک دن

پہلے خوشی سے  دل کو نوازے گی خوب تر

پھر  مجھ  کو جام  درد  پلائے گی  ایک دن

خالی نہ دل یہ درد سے ہوگا کبھی بھی حق

کیسے  وہ  خود کو  دور  ہٹائے گی  ایک دن

*** ایم اکرام الحق ***

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں