داستان گمنام مجاہدوں کی قسط نمبر 4

 قسط نمبر 4

 داستان گمنام مجاہدوں کی

تحریر:توقیر بھملہ

انتخاب و تحریر:افشاں سحر


آب و گِل کے کناروں پر فضائیہ، بحریہ اور دیگر مختلف ٹیمیں رکی ہوئی تھیں، ان سب نے مٹی سے جدا ہوتے ہی، بگ بینگ کی طرح  الگ الگ ڈگریوں میں مختلف سمتوں کی جانب سفر کرتے ہوئے ویران جزیروں کے پار اترنا تھا،  موسم کے تیور پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہونے کی وجہ سے روانگی تاخیر کا شکار ہورہی تھی. بیکار بیٹھنے کی بجائے، جوانوں نے یہاں خود کو فعال اور متحرک رکھنے کیلئے مختلف کام بانٹ لیے تھے، اگلی چوکیوں کیلئے پلاسٹک کے ڈبوں اور لوہے کے ڈرموں میں تازہ پانی بھرنا، لکڑیوں کے بنڈل اور اناج کی بوریاں بنانا، ہوڑوں اور کشتیوں کو رنگ و روغن کرنا جس کو یہاں چونا چربی کرنا کہتے ہیں. پیندے اور دیگر حصوں میں سمندری پانی اور کیڑوں کی وجہ سے سوراخ ہونے اور زنگاری کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جس کا بروقت سدباب چونا چربی کہلاتا ہے، یہاں ہر طرح کی چھوٹی چھوٹی دنیائیں ہیں، کہیں تبلیغ کا گروپ ہے تو کہیں شاعری اور نثر کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں، تاش اور لڈو یہاں کا قومی کھیل ہے، کچھ جز وقتی دانشور اور ماہر معاشیات بھی ہیں جو آٹے اور دال کی رسد و طلب میں الجھے رہتے ہیں، 2007 جنوری کے ابتدائی دن گزرنے کے بعد ایک صبح موسم قدرے دھوپ زدہ تھا، تو جلدی سے روانگی کیلئے تیاری ہونے لگی، سامان ہوڑوں پر لادا گیا، سگریٹ اور نسوار کے کوٹے پورے کیے گئے، خیمہ بستی مہمانوں کو رخصت کرنے ہوڑوں تک آئی، ابھی گلے ملنے کی نوبت ہی نہ آئی تھی کہ گرج چمک کے ساتھ بارش نے آن لیا، فوراً سامان وغیرہ پر دوبارہ ترپال ڈال کر روانگی ملتوی کی گئی ، اور مسافر واپس خیموں میں چلے گئے، ایسا تین بار ہوا، جب بھی روانگی کیلئے تیاری ہوجاتی تو قدرت اس تیاری کو ملتوی کردیتی رہی.


14 جنوری 2007 کو ایک صبح موسم خشک اور ڈھیروں دھوپ لیے ہوئے تھا،روشن دن کو دیکھتے ہوئے، سب کے چہروں پر دھوپ سے بڑھ کر چمک تھی، کہ آج ان شاءﷲ روانگی پکی ہے، موسم بالکل صاف ہوگیا، تو عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد، شام 04:30 بجے، خدا خدا کرکے دیگر منزلوں کے مسافروں اور شاہینوں کو لیے ہوئے ایک ہوڑے نے سمندر کے سینے کو چیرنا شروع کردیا، مغرب کی نماز دوران سفر ہوڑے پر ادا کی گئی، یہ 14 جنوری اور ذوالحج کی 30 تاریخ تھی ، اماوس کی تاریک رات میں یوں لگتا تھا کہ، سیاہی ہوڑے سے پھوٹ پھوٹ کر شش جہت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے، روشنی کے تمام منظر تاریکی کے چادر تلے چھپتے گئے، جوں جوں منزل کی طرف بڑھنا شروع ہوئے تو نیم خوابیدہ پانی نے آہستہ آہستہ کروٹیں بدلنی شروع کردیں، دیکھتے ہی دیکھتے لہروں نے طغیانی کی شکل اختیار کرلی، موسم کے تیور بھی پانی کے ساتھ ساتھ بدلنے لگے، سرد جسموں پر آرے کی طرح چلتی ہوا کا زور و شور بڑھنے لگا، یوں لگ رہا تھا کہ تہہ آب کوئی بدمست ہاتھی ہے جو اچانک بپھر گیا ہے، لہریں ہوڑے کو کسی بچے کے جھولے کی مانند شرقاً غرباً اچھالنے لگیں، یہاں کے رہنے والوں کیلئے تو یہ ایک روزمرہ کی معمولی بات تھی، ہر چند میلوں کے بعد کچھ ایسے مقامات تھے، جہاں یہ سمندری دریا کے آٹھ سے دس رستے بنتے تھے، اور ان رستوں کا مرکز ایک دائروی میدان کا روپ دھارے ہوتا ہے جہاں ملنے اور بچھڑنے والے پانی کی بے ہنگم اچھل کود ہوتی ہے ایسے ہی ایک دائرے کو یہاں جِنوں کے میدان کا نام دیا گیا تھا، یہاں پانی یوں زور سے اوپر کی جانب اچھلتا ہے جیسے ہزاروں دیگوں کے نیچے آگ دہک رہی ہو اور ان کا پانی آسمان کی جانب ابل ابل کر بہہ رہا ہو، یہاں عام حالات میں بھی پار جانا ایک مشکل کام ہوتا ہے،  اگر سرد طوفانی موسم کی تھپیڑوں سے پانی بپھر جائے تو پھر انتہائی مہارت کے ساتھ مشاق ناخدا ہی اس کو پار لیکر جاتا ہے، جِنوں کے گراؤنڈ میں داخل ہونے سے پہلے روٹین کے مطابق ہوڑے کی جانب سے “سب اچھا ہے” کا سگنل اگلی اور پچھلی چوکیوں کی طرف ارسال کردیا گیا، آسمان پر اب نہ ہی ستارے ہیں، اور نہ ہی کوئی سنگ میل، اب کشتی رانی اور میلوں کی مسافت طے کرنا ہوڑے کے ناخدا کی سوجھ بوجھ پر منحصر تھا، آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے ہوڑا اب پوری طرح جنوں کے گراؤنڈ میں داخل ہوگیا ہے، 4 شاہین اور 8 بحری پاسبانوں کے ساتھ دیگر 50 سے زائد بندوں کا سامان، راشن پانی، اسلحہ وغیرہ سے لدے ہوڑے کی رفتار کو انتہائی کم کیا گیا، عشاء کی نماز ادا گئی، ہلکا پھلکا کھانا اور سبز قہوے کا دور چلا، اب تقریباً رات کے 08:15 کا وقت ہے، اماوس کی رات اور جوار بھاٹا کی کیفیت ہے، بصارتوں سے زیادہ سماعتوں پر بھروسہ کیا جارہا ہے، ہوڑا اس ابلتے اچھلتے میدان کے عین وسط میں تھا کہ اچانک سرکش ہوا نے ہوڑے پر واحد روشن قندیل کو اٹھا کر پانی میں پھینک دیا اب چہار سو تاریکی کا راج تھا. 


 .       ………………. سروے کیمپ……………………           . 


ہمارے دن رات یہاں سروے میں بسر ہورہے تھے 14 جنوری 2007 کا ہی دن تھا، سروے میں کافی دن گزارنے کے بعد سب تھکنے کے باوجود زندگی کی گاڑی پوری طاقت سے کھینچنے میں جتے ہوئے تھے، اس روز میں اپنی سروے ٹیم کے دو ممبران اور ایک محافظ کے ساتھ انڈیا کی کشتی میں اور انہی کے علاقے میں تھا، اس روز موسم تقریباً اچھا تھا، بارش نہیں تھی مگر سرد ہوا پوری قوت سے چل رہی تھی، کشتی چلانے والا حیدرآباد انڈیا کا  اور اس کا محافظ بھارتی پنجاب کا سردار تھا، کشتی کو کریک کے کنارے پر لنگر انداز کیا وہاں سے خشکی پر اتر کر سروے والے اپنے کام میں مصروف ہوگئے اور ہم آپس میں گپ شپ کرنے لگے، میں سگریٹ پیتا تھا اور سرحد پار والے بیڑی، یقین مانیے میری اس بری لت کو وہ رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، ایک بار پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ سگریٹ جیسی عیاشی افورڈ نہیں کرسکتے تھے ، صاف پتا چلتا تھا کہ وہ سگریٹ پینا چاہتے ہیں مگر مانگ کر پینے میں وہ ہچکچاہٹ کا شکار تھے، اور میرا دل یہی تھا کہ ایک بار مانگیں تو تب ہی دوں، ویسے ان کو سختی سے ہدایت تھی کہ ہم سے کچھ بھی کھانے پینے کا سامان نہیں لینا، حالانکہ ایک ساتھ رہنے سے میں نے دیکھا کہ ہم تقریباً ایک جیسی بول چالے والے اور ایک جیسی شکل و صورت والے لوگ ہیں، اور پتا نہیں کب تک یونہی جانی دشمن بنے رہیں گے، ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے سگریٹ جلانے میں دشواری ہورہی تھی ماچس کی ڈبیہ تیلی تیلی کرکے زیست کی طرح بیکار خرچ ہوتی

جارہی تھی لیکن دیا سلائی جلنے سے انکاری تھی، اچانک حیدرآبادی میرے نزدیک آیا کہنے لگا، بھیا میں اوپر ہاتھ رکھ کر ہوا کو روکتا ہوں تم سگریٹ سلگا لو، جیسے ہی دیا سلائی کا شعلہ بھڑکا اور میں اسے ہاتھوں سے ہونٹوں تک لیجانے لگا تو یکدم اس ظالم نے پھونک مار کر بجھا دیا میں حیران کہ اس کو اچانک کیا لڑ گیا ہے، میں نے سوالیہ نگاہوں سے اشارہ کیا، کہ کیا ہوا؟ کہنے لگا بھیا آپ ایک شرط پر سگریٹ سلگا سکتے ہو، میں نے کہا بتاؤ، کہنے لگا وہ شرط یہ ہے کہ ایک سگریٹ مجھے بھی پلاؤ گے، میں نے خوشدلی سے کہا چلو پہلے تمھارے لیے سلگاتے ہیں، اور یوں میں نے دشمنی کو دوستی میں بدل دیا، جیسے ہی ہم آپس میں فری ہوئے انہوں نے فوراً پاکستانی روح افزا، سوہن حلوے وغیرہ کی فرمائش کردی، مگر یہ دوستی سروے کیمپ تک ہی رہی، سوشل میڈیا اس وقت ایک نوزائیدہ بچہ تھا جو ابھی ہر جگہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا، اور یہاں پر تو تار والے فون کی سہولت تک بھی میسر نہیں تھی انٹرنیٹ کجا، وہ دن یوں ہی روٹین کے مطابق گزرا شام کو ہم اپنے کیمپ میں پدھارے، معمول کے مطابق کھانا کھایا، ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد دنیا جہان سے بے خبر سوگئے.

جاری ہے


توقیر بُھملہ

 

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں