داستان گمنام مجاہدوں کی قسط نمبر3

قسط  نمبر 3
داستان گمنام مجاہدوں کی
تحریر:توقیر بھملہ
انتخاب و پیشکش:افشاں سحر

تصور کریں کہ گلیشئر کی بلندیوں پر برف زاروں کے بیچوں بیچ آپ کی کسی سے ملاقات طے ہے, دونوں کو تقریباً ایک جیسا سفر درپیش تھا, جب ہفتوں کی مسافت طے کرنے کے بعد آپ ملاقات کو جاپہنچیں تو, ملاقات کی پہلی نظر پر ہی, آپ پر حیرتوں کے کئی مزید گلیشئر ٹوٹ پڑیں, ایسا سفر جس میں رتجگے، طویل مسافت کی تھکان بھوک پیاس اور موسموں کا جبر آپ کے چہرے مہرے لباس کو بوسیدہ اور شکن زدہ کردے, طویل مسافت کی داستان چہرے پر عبارت اور عیاں ہو, لیکن اگلے بندے نے تقریباً تازہ شیو کے ساتھ کلف لگا استری شدہ لباس پہنا ہو, جوتوں پر مسافتوں کی گرد کا نام نشان بھی نہ ہو, ایک  ہاتھ میں خوشبودار سگار اور دوسرے ہاتھ سے گرم بھاپ اڑاتی کافی کا مگ تھامے ہو, تو آپ نفسیاتی طور پر متاثر ہو کر ایک درجہ نیچے چلے جائیں گے, آپ اس کی تیاری سے نا چاہتے ہوئے بھی متاثر ہوکر اپنی منتشر سوچوں کو یکجا نہیں کرپائیں گے، اور یہی ہماری پہلی حکمت عملی کا حصہ تھا, ہم نے دشمن پر نفسیاتی برتری ہر صورت حاصل کرنی تھی, ہمارا اسٹریٹیجک پلان یہی تھا, اس لیے کوئلے اور کوئلوں سے گرم ہونے والی استری، نئے یونیفارم برش اور پالش دیگر لوازمات کے ساتھ لازم و ملزوم تھے، رات کوئی بھی اپنا یونیفارم پریس کیے اور جوتے پالش کیے بغیر سو نہیں سکتا تھا, چاہیے اب نیند آنکھوں سے اتر کر اعصاب پر کیوں نہ آجائے، شہر آباد ہوگیا خیمے روشن ہوگئے اور زندگی رواں ہوگئی، ہم چند آوارہ گرد سر پھروں کا ایک الگ خیمہ تھا جہاں دوسرا کوئی رسائی نہیں رکھتا تھا، یہ چند لوگ پوری خیمہ بستی کی آنکھیں کان اور دھڑکن تھے یہ یہاں کے کیڑے ہیں, انہوں نے نیلگوں آسمان کے نیچے رواں پانیوں کی تہوں کو اسقدر کھنگالا ہوا تھا کہ, گھپ اندھیری رات میں میلوں کا سفر بغیر کسی سہارے اور کنارے کے طے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے, جھپٹنے اور پلٹنے کی عملی تصویر تھے، آنے والی صبح نظریاتی اور سرحدی دشمن سے پہلا ٹاکرا تھا یہ ٹاکرا ایک پہلے سے طے شدہ اور متفقہ جگہ پر تھا ہمارے اور ان کے کیمپ کے وسط میں ایک ملاقاتی خیمہ لگا کر آر پار سرحد کے باسیوں نے ملنا تھا. ملاقات اور مختصر گپ شپ کے بعد ہماری سروے ٹیم نے ان کے علاقوں میں جانا تھا اور انہوں نے اسی طرح ہمارے علاقے میں آنا تھا، ملاقات ہوئی ٹیمیں تقسیم ہوئیں اور باقاعدہ سروے شروع ہوگیا.

__________سانپوں کی بستی اور موت کا راج ________

سر کریک جہاں سروے ہورہا تھا اس سمت آتے ہوئے عدو مبین کی جانب ہماری ایک سمندری چوکی تھی ، یہاں تمام جزیرے نما جگہیں تقریباً ایک جیسی شکل کی تھیں، وہی سمندر سے کٹا ہوا نمکین دریا، سمندر اور دریا کے وسط میں مٹی کے ڈھیر، مینگرووز کے درخت، وہی آبی حیات اور یکسانیت سے بھری ایک رنگ کی دنیا، یہاں رہنا ایک طرح کا طویل صبر آزما امتحان ہے، اور اس امتحان سے صبر و جبر کے ساتھ، دیر بدیر سب نے گزرنا ہی ہوتا ہے، ہم اپنا یہ امتحان گزارے ہوئے تھے، سانپ جھینگے اور مچھلیوں کے واقف کار تھے، اور وہ ہمارے محرم راز تھے. یہاں دراصل دن اور رات کا تصور محض کھانا کھانے کی حد تک ہوتا ہے، ورنہ روشنی اور اندھیرا کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتے، یکسانیت، ایک جیسا ماحول، ایک جیسے افراد  ایک جیسی لگی بندھی روٹین، جہاں عیاشی صرف ، نئی کتاب، ریڈیو کے نئے سیل، تازہ گوشت، گھر سے آیا ہوا خط یا پھر قدرتی میٹھے پانی سے نہانا تھا، جو روز مرہ کے استعمال کیلئے ہر شخص کو ماپ تول کر دیا جاتا ہے، پانی کم ہوسکتا ہے زیادہ نہیں، دریا کے کنارے پیاسے رہتے ہیں، یہاں ہر دو چار روز بعد مچھیروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، کسی کو بخار ہے، تو کسی کو مچھلی نے کاٹا ہے، سب دوا لینے آتے تھے، ہم ان کو اپنا راشن بھی دے دیتے تھے، کہ یہاں رہتے ہوئے کھانے پینے کی خاص حاجت تو رہتی نہیں، اس کے علاوہ یہاں کوئی اور ذی روح یا رنگینی نہیں تھی، جس سے کم از کم آنکھ کا ہی ذائقہ بدلا جاسکے. دونوں طرف یہ تمام علاقے ہر قسم کی فضائی پرواز کیلئے ممنوع علاقے تھے، یہاں ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا  کوئی نیا ریکروٹ اپنی ٹریننگ مکمل کرکے رضا کارانہ طور پر سیدھا یہاں آیا، لیکن چند ہی دنوں میں بوریت اور یکسانیت نے اس کا دماغ شل کردیا، ایک تو وہ اکتایا ہوا تھا اوپر سے سرد طوفانی رات میں اس کا پہرہ بھی تھا، ابھی وہ خام تھا یا کیا سبب تھا، اس نے رات کو دور آسمان میں جلتی بجھتی روشنیاں دیکھیں، تو فرض کرلیاکہ دشمن نے حملہ کردیا ہے، اس لیے اپنی صوابدید پر ان روشنیوں پر فائرنگ شروع کردی، وہ ایک کمرشل فلائٹ تھی، جو موسم کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اس روٹ پر آگئی تھی، پائلٹ نے نیچے سے اپنی طرف شعلے سے لپکتے دیکھے تو فوراً اپنے متعلقہ اداروں تک اپنا ایمرجنسی پیغام پہنچایا، جس سے اسلام آباد اور کراچی والوں میں ہلچل مچ گئی کہ کیا ہوگیا، دن کو وہاں مختلف ٹیموں کی آمد شروع ہوگئی سب کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا. کافی دنوں کی تفتیش اور تحقیق سے بالآخر نتیجہ نکلا کہ یہاں فضائیہ کے چند شاہینوں کو معاونت کیلئے تعینات کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ بروقت نشاندہی کرسکیں، اور یوں شاہینوں کی پانچ یا شاید چھ بندوں پر مشتمل ایک ٹیم وہاں مستقل طور پر تعینات ہوکر آگئی.
سروے کے دوران ہی اس چوکی پر شاہینوں کی تبدیلی ہونا تھی، پہلے والوں کی جگہ پر نئے تازہ دم دستے نے آنا تھا. فضائیہ کے چار شاہین زمین کی اس آخری حد تک پہنچ چکے تھے، جہاں سے ہم نے پہلے حصے میں سروے کے لیے سمندر کی موجوں پر قدم رکھا تھا، موسم انتہائی خراب ہوچکا تھا،  کسی بھی وقت موسم بہتر ہوتے ہی انکی شاہینوں اور ان کے ہمراہ جانبازوں کی روانگی متوقع تھی
جاری ہے………
 
 
نواحِ نصرت و فیروزی و ظفر میں رہوں
مرے وطن میں ترے قریہء خبر میں رہوں

عزیزِ جاں ہیں یہی راستے غبار آلود
نہیں یہ شوق کہ گُلپوش رہگزر میں رہوں

ترے ہی گیت سنوں دھڑکنوں کے سرگم میں
کسی دیار میں ٹھہروں کسی نگر میں رہوں

اسی کے دم سے کھلیں روح کے گلاب تمام
اسی زمیں کے طلسمات کے اثر میں رہوں

مری شناخت اگر ہو تو تیرے نام سے ہو
اے ارضِ شوق تری چشمِ معتبر میں رہوں  ( شبنم شکیل ) 

توقیر بُھملہ 
اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں