داستان گمنام مجاہدوں کی

 



قسط نمبر 2

داستان گمنام مجاہدوں کی 

تحریر:توقیر بھملہ

انتخاب و پیشکش:افشاں سحر

نیلے پانیوں سے کالے پانیوں تک طویل تھکا دینے والا بوریت سے بھرپور خشک سفر ہے، راہ میں کئی ایسے مقام تھے جہاں سے کسی کو اتارا اور کسی کو ہمراہ لیا، یوٹیوب سے پہلے کا وقت تھا اس لیے وقت ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں گزرتا چلا گیا، رکتے ٹھہرتے ہم وہاں جاپہنچے جہاں بپھرا ہوا پانی پرسکون زمین سے لپٹ کر چومتا ہوا اٹھکیلیاں کررہا تھا، یہ جگہ کبھی کسی دور میں سونے چاندی کی تجارت کرنے والوں اور ادھر اُدھر سے لوٹ مار کا مال خرید و فروخت کرنے والوں کی جنت تھی، خفیہ رستوں اور  قدیم بازاروں کی ثقافت کے نشان یہاں وہاں بکھرے پڑے ہیں، یہاں ہمارا زمین سے رشتہ ٹوٹ کر کئی ہفتوں بلکہ مہینوں کیلئے کالے پانی سے جڑنے والا تھا، اس سے اگلے جہانوں کا ایک سحر اور ایک نشہ تھا جو یہاں اکثر و بیشتر کھینچ ہی لاتا تھا ، یہاں سے آگے پانیوں کے دوش پر ان گنت سفر اور ان گنت رستے تھے جو مجھے بند آنکھوں سے زیادہ واضح نظر  آتے تھے، یوں جیسے مدرسے کے بچے نے قاعدہ حفظ کررکھا ہو. 


یہاں آج کی رات ہم نے ایک مختصر قیام کرنا تھا، صبح سروے ٹیم کی آمد تھی، اس سے پہلے ہمیں اپنی کشتیاں سامان سے لادھ کر تیار رکھنی تھیں. جہاز سے چھوٹا اور کشتی سے قدرے بڑا جس کو مقامی زبان میں”ہوڑا” کہتے ہیں وہ ہمارے حصے میں آیا، ہماری ٹیم نے اپنی سفر کی تھکان اتارنے سے پہلے اس ہوڑے کو تیار کرنے کا پلان بنا لیا، اور پھر بلاتاخیر اس پلان پر عملدرآمد کیا گیا. ہوڑا تیار کرکے اس پر ترپال ڈال کر ہم پہلے سے لگے خیموں میں سستانے کیلئے چل دیئے.

نماز فجر سے پہلے جاگے، نماز ادا کی گئی ناشتے کے دوران ہی سروے ٹیم پہچ گئی، ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر سروے والوں کا سامان ہوڑے پر رکھوایا،  مسافروں کی لسٹ اور سامان کی لسٹ چیک کی، سب کچھ ٹھیک تھا، رب کا نام لیتے ہوئے، پانیوں کے مسافر، زمین پر رہنے والوں سے جی بھر کر گلے مل رہے تھے، الوداعی منظر جہاں بھی ہو آنکھوں میں آنسو کے نشان چھوڑ جاتا ہے. یہاں سے آگے سمندر کے سینے سے پھوٹنے والے نمکین پانیوں کے دریا تھے، جو کہیں پر پورے کے پورے سمندر کا روپ دھارے ہوئے تھے، اور کہیں پر تنگ و تاریک ندی جیسے تھے، یہ ندیاں دریا اور سمندر کے درمیان موت کے تاریک کنویں جیسی عفریت تھیں، جنہیں پار کرنے کیلئے زندگی اور موت کے درمیان کی کوئی چیز، کوئی قوت، کوئی جذبہ درکار ہوتا تھا ، جس کو اکثر کوئی نام دینے سے قاصر رہتا تھا، شاید زندہ رہنے کی تگ ودو یا پھر زندگیوں کی حفاظت کا فرض.

سمندر سے بغاوت کرکے اپنے دریا بنانے والے اس حصے کو انگریزی میں “کریِک” کہتے ہیں اور یہی نام یہاں بھی رائج تھا حالانکہ ان کو کھاڑی کہنا درست تھا لیکن کھاڑی ایک متروک لفظ تھا اور کریک مستعمل. زیادہ تر کریک کے دونوں اطراف مینگرووز کے درختوں کے جھنڈ، فانا اور فلورا جھاڑی نما پودے، پرندوں اور باقی سمندری حیات کا بسیرا ہے پانی سے کناروں کی طرف زمین دلدلی کیچڑ پر مشتمل ہے جو اپنے شکار کو ہمہ وقت نگلنے کو بیتاب رہتی ہے، دلدل سے جیت جائیں تو لنُڈی سانپوں کی بستیاں ہیں، جو بغیر لہو کا خراج لیے کسی کو اپنی زمین سے گزرنے نہیں دیتے، مہاجر پرندوں کے بڑے بڑے گھونسلے درختوں پر یوں براجمان تھے جیسے آسمان کے نیچے بے شمار چھتریاں بکھری ہوں. یہاں ہوڑا چلانے کیلئے آہنی اعصاب کی ضرورت ہے کریک میں آپ ایسے چلتے ہیں جیسے ماہر بازیگر کسی  باریک ننگی رسی پر ننگے پاؤں چوکس ہو کر چلتا ہے کہ ذرا سی نگاہ اور پاؤں کا زاویہ بدلا تو موت جیت جاتی ہے، یہاں نظر آنے والے پانی اور صحرا کےسراب میں رتی بھر بھی فرق نہیں، وہاں پانی کا سراب مار دیتا ہے اور یہاں پانی کا وجود مار دیتا ہے ہر نظر آنے والا پانی رستہ نہیں بلکہ گنجل گھیریاں ہیں جن میں مسافر پھنس کر زندگی سے دور ہوتا جاتا ہے. روانہ کئی بار نظر رستے سے ہٹ کر سراب کے گرداب میں جانے سے آناً فاناً ہوڑے اور کشتیاں کسی بدمست ہاتھی کی طرح دلدل کی طرف دوڑتے ہیں اور بے قابو ہوکر کیچڑ میں لت پت ہوجاتے ہیں، اس کے بعد بڑا جان جوکھم کا کام ہوتا ہے تقریباً اکثریت کو نیچے دلدل میں اترا کر بانسوں وغیرہ کی مدد سے ہوڑے کو دھکیل کر پانی کے وسط میں لے جانا پڑتا ہے. چھوٹی کشتیوں کو رسوں کی مدد سے اور بعض اوقات اوپر اٹھا کر پار لگانا ہوتا ہے اور یہی وہ حقیقی پیر ہیں جن کو پکارا جاتا ہے کہ میری کشتی پار لگا دے، انکے سامنے ایک مشن ایک مقصد ہوتا ہے جس کی تکمیل اور ملک و قوم کی امانت کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر جوانی اور سرمایہ زیست خرچ کردیتے ہیں. بمطابق پروانہ ہم اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں، منزل دور ایک کالا پانی ہے جہاں کے پوشیدہ مقامات گر کوئی جہان گرد دیکھ لے یا فسوں خیز کہانیاں سن لے تو صدیوں حیرت سے مجسم ہوجائے. یہاں دنوں کی مسافت بغیر کسی نشان نقشے اور سہارے کے کی جاتی ہے، صرف خدا بزرگ وبرتر کی ذات راہنما اور سہارا ہوتی ہے، اور اس کا عطا کردہ دماغ. یہاں کچھ جگہوں پر تو حیران کن حد تک دنگ کردینے والے آثار ہیں پورا کا پورا قبرستان زمین سے ابھر کر بکھرا ہوا ہے، ٹوٹے برتنوں اور ریشمی کپڑوں کی باقیات ہڈیاں وغیرہ کو سمندر نے اپنی اندرونی وحشت سے گھبرا کر اگل رکھا ہے، جو ان گمنام اور ویران جزیروں کے سینے پر تمغوں کی مانند سجے ہوئے معلوم ہوتے ہیں . یہاں انسانی آبادکاری کا تصور بھی نہیں، وہاں قدرت نے سانپ بستیوں پر بڑی فیاضی کی یے دنیا کی اعلٰی نسل کی نایاب مچھلیاں اور جھینگا یہاں وافر دستیاب ہے جو زیادہ تر سانپوں کی خوراک بن جاتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کے سانپ خوش خوراک ہیں اور خوش قسمت ہیں ، ان نایاب مچھلیوں کی لالچ میں سندھی مچھیرے یہاں جب آتے ہیں تو اپنے ساتھ دو تین ماہ کا راشن اور ڈیزل وغیرہ ساتھ لے آتے ہیں اور باقی دنیا سے منقطع ہوجاتے ہیں، سمندر اور مچھلیاں اب ان کی دنیا ہے، یہ پاپلیٹ (پومفرٹ) مچھلی کو کالا سونا کہتے ہیں اسی لالچ میں نظر نہ آنے والی سمندری حدود عبور کرجاتے ہیں اور سرحد پار کے محافظوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جہاں ظلم و تشدد کو برداشت کرتے ہوئے اکثریت جاسوسی کے الزامات میں وہاں جیلوں میں گل سڑ جاتے ہیں، اور پیچھے راہ تکتی آنکھوں میں ہمیشگی کا دکھ اور انتظار چھوڑ جاتے ہیں. وہاں پر ہمارا حال ان مچھیروں سے ملتا جلتا ہے ہم وہاں پر باقی رنگین دنیا سے منقطع ہوجاتے ہیں، وہاں کسی کے عزیز رشتہ دار کے ساتھ خدانخواستہ نیم سیم ہوجائے، تو پیغام دو دن بعد پہنچتا ہے اور مسافر پھر اس کے اگلے پانچ دن بعد گھر پہنچتا تھا، یہاں کی کٹھن اور دشوار حیات بھی جوانوں کے حوصلے پست نہیں کرسکتی یہ اپنے مشن اور مقصد کی خاطر ہمہ وقت تیار ہیں، کوئی بھی زنجیر ان کے پاؤں یا ارادوں کی زنجیر نہیں بن پاتی، یہاں ہمارا دوسرا جنم ہوتا ہے جہاں حب الوطنی اور وطن پرستی گھٹی میں پلائی جاتی ہے. 

سروے ٹیم اور باقی ہوڑے کے مسافر آپس میں  خوب گھل مل گئے ہیں، گرد و پیش سے بے نیاز ایک دوسرے  سے بڑھ چڑھ کر ٹھٹھا مخول کرتے ہوئے سفر کو یادگار بناتے رہے، 

بقول شاعر 

 نہ گرد و پیش سے اس درجہ بے نیاز گزر 

جو بے خبر سے ہیں سب کی خبر بھی رکھتے ہیں


دوران سفر کئی بار کھانا اور چائے کے دور ہوڑے پر  چلتے رہے نماز بھی ہوڑے ہر ہی ادا کی جاتی رہی، پورا سفر یخ بستہ نمکین پانیوں اور سرد ہواؤں کے درمیان کٹتا رہا سفر میں آج ایک دن اور رات کے بعد دوسری صبح ہے جو کسی حد تک چمکیلی اور گرم سورج کے ساتھ ہے بڑے دنوں کے بعد دھوپ پور پور میں جذب ہوکر حرارت سے میٹھی میٹھی گدگدیاں کرنے لگی تھی ، ہوڑے کے مسافروں کی مشترکہ منزل سر کریک کے وسط میں ہندوستان کی سمندری حدود کے قریب صدیوں سے بے آباد ویران جزیرہ تھا، مسافروں کی چشم حیراں کے سامنے نمکین پانی سے آہستہ آہستہ طلوع ہوتا ہوا یہ جزیرہ پورے کا پورا ہمارے سامنے ہے دور تلک نیم سبز ٹنڈ منڈ درختوں کے قدموں سے لپٹی بھوری مٹی کے سوا آنکھ دوسرا منظر ڈھونڈنے سے قاصر تھی، اسی خاک پر ڈیڑھ سے دو ماہ کیلئے خاک نشین بسیرا کریں گے. منزل کو دیکھتے ہی ہوڑے کی یکسانیت میں ایک ہلچل سی تھی منزل کی خوشی ہر مصیبت اور تکلیف کو بھلا دیتی ہے خدا کے حضور شکر ادا کیا گیا کہ پرخطر سفر پرامن گزر گیا ہے.

کنارے کی طرف بڑھتے ہوئے ایک محتاط اندازے کے مطابق ہم پانی میں اترنا شروع ہوگئے اب ہوڑوں پر چند لوگ اور سروے ٹیم باقی رہ گئی ہے، پانی اور کنارے کے درمیان ازلی دلدل تھی جس کے پار جاکر سب سے پہلے ہوڑوں اور کشتیوں کو کھڑا کرنے اور باندھنے کا انتظام کرنا تھا منزل پر پہنچتے ہی زندگی جیسے یکدم بیدار ہو گئی ہو مشینوں سے تیز کام ہو رہا ہے ہوڑوں اور کشتیوں کو کنارے لانے اور باندھنے کا انتظام مکمل ہوا تو سروے ٹیم اور سازو سامان کو اتارنے کا مرحلہ تھا لیکن اس سے پہلے ہمیں ایک ترتیب سے چلنا اور اس ترتیب کا خیال ہر صورت رکھنا ہے، سروے ٹیم کو کندھوں پر بٹھا کر دلدل کے پار کناروں پر اتارا گیا، اس کے بعد جگہ کی صفائی ستھرائی کرکے اس کو رہنے کے قابل بنانے کا مرحلہ تھا . اب خیمے وغیرہ اتارنے کے بعد، راشن اور دیگر سامان اتارا جا چکا ہے، اور یہ سارا سامان دلدلی کیچڑ میں رینگ رینگ کر اتارا اور پار لگایا گیا کچھ سامان تو سروں پر اکیلا بندہ اٹھا لیتا ہے لیکن کچھ چیزیں ڈنڈا ڈولی کی صورت میں لے جانی پڑتی ہیں جو ایک انتہائی مشکل مشق ہے ، ایک پاؤں اٹھائیں تو دوسرا  گوڈے تک دھنس جاتا ہے،  یوں گوڈے گوڈے چلنے کا مشکل مرحلہ ختم ہوا، اگلے مرحلے میں یہاں کے میزبان نے حیرت اور خوشی سے کناروں پر استقبال کرتے ہوئے ہماری آبادکاری کیلئے جگہ کو خالی کرنا شروع کردیا تھا، اور یہ ہمارے میزبان سانپ ہیں جو اتنی تعداد میں ہیں جیسے یہ سانپوں کی منڈی ہو، یہاں اب ہم اقلیت کا درجہ اختیار کرچکےہیں کیوں کہ سانپ اکثریت میں ہیں، یہاں کا سانپ انتہائی سست اور کاہل وجود ہے اس کو اگر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پھینک دیں تو جہاں گرے گا وہیں لیٹا رہے گا شاید نمکین آب ہوا کا اثر ہے لیکن جتنا سست ہے اس سے ہزار گنا زیادہ زہریلا اور قاتل سانپ ہے جسامت میں چھوٹا اور منہ باقی جسم سے بڑا جس کو ہم نے لُنڈی سانپ کا نام دے رکھا ہے، اگر کاٹ لے تو ایک سے دو گھنٹے میں اس کا زہر خون کو لوتھڑوں میں تبدیل کرنے کے ساتھ دل سے دماغ کو آکسیجن کی سپلائی معطل کردیتا ہےاور اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو موت یقینی ہے. یہاں ہر پانچ قدم کے بعد دس سانپ آپس میں گتھم گتھا گچھے کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں جو ماحول کے مطابق مٹیالی رنگت لیے ہوئے ہیں بعض اوقات تو پاس جا کر بیٹھ جائیں تو پتا ہی نہیں چلتا. خیر ہر کسی کا تھکاوٹ سے برا حال ہے لیکن پہلا ٹاسک جنگل میں منگل کرنے کا ہے جو وہاں خیمہ بستی کی آباد کاری عارضی جیٹی اور بندرگاہ، مال وجان کی حفاظت اور کھانے پکانے کا انتظام وغیرہ ہے. زمین پر ایک خیالی نقشہ بناکر سب کو سمجھا دیا گیا ہے رہائشی، کھانے پینے اور دیگر ضروریات کے خیمے لگنے کا مرحلہ وار اختتام ہورہا ہے. اب اگلا مرحلہ 150 افراد کی اس خیمہ بستی کے چاروں طرف سانپ سے حفاظت کیلئے خندق کی کھدائی ہے جو دو فٹ گہری اور دو فٹ چوڑی ہے، سروے ٹیم کیلئے یہ حیرت کا مقام تھا ان کے نزدیک یہ لوگ جن ہیں جو انسانی روپ میں ان کے ساتھ ہیں کیونکہ کوئی بھی تین دن کے مسلسل سفر اور لہو منجمند کرتی تندخو ہوا کے باوجود آرام نہیں کرنا چاہ رہا الٹا کسی تازہ دم دستے سے زیادہ چستی سے سب اپنے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں. کچھ خندق کی کھدائی کررہے ہیں کچھ لکڑیاں جمع کرکے کھانے پکانے کا بندوبست کرنے میں جتے ہوئے ہیں، چند گھنٹوں کی انتھک محنت کے بعد بالآخر خیمہ بستی نے پورے غرور کے ساتھ بے آباد ویران جزیرہ کو آبادکاری سے عزت اور رونق بخشی. تنور کی روٹی چنے کی دال اور کالا قہوہ یقیناً اس وقت یہ دنیا کی سب سے بڑی مہنگی عیاشی تھی. کھانے کے بعد سروے ٹیم کے انچارج نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا “اتنی جلدی جن شاید اہرام مصر کی تعمیر نہیں کرسکتے جتنی جلدی آپ جن نما انسانوں نے یہاں آناً فاناً شہر آباد کیا ہے، اب میں بچوں کو کسی بادشاہ اور پرستان کے قصوں کی بجائے آپ لوگ جو زندہ جن ہیں ان کی باتیں بتاؤں گا، میں جنوں اور دیو کی بجائے تمھارے قصوں سے ان کو حیرت زدہ کردوں گا. “

دوستو یہاں تک ایک لمبی تمہید باندھنے کا مقصد ابتدا میں بیان کیے گئے چند گمنام مجاہدوں کے قصّے کے پس منظر سے آگاہی دینا اور مختلف جگہوں پر واقعات کا آپس میں تال میل اور اتفاقات کا حسن بیان کرنا یے، میں ان واقعات کا ایک کردار ہوں اور باقی کرداروں کی یادداشت اس لیے قلمبند کرنے جا رہا ہوں کہ ایک تو ان واقعات سے گمنام مجاہدوں کی انمول ہمت اور حوصلے کی داستان آپ تک پہنچا سکوں، اور ساتھ ایک ان دیکھی ان چاہی دنیا کی منظر نگاری کرکے اس کو امر کرنا ہے جس سے ابھی تک کروڑوں دل بے خبر اور لاکھوں آنکھیں لاعلم ہیں. 

جاری ہے…….


اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں