داستان گمنام مجاہدوں کی

 قسط نمبر 6 

داستان گمنام مجاہدوں کی

تحریر :توقیر بھملہ

انتخاب و پیشکش:افشاں سحر

چوکی پر سنتری نے فجر کی اذان سے پہلے جنریٹر بند کیا اور گمنام مجاہدوں کے گمنام جزیرے پر اذان دینے لگا. ﷲ اکبر کی صدا کے ساتھ چوکی پر زندگی جاگنے لگی تھی، جوانوں کی حي على الصلاة کی طرف جانے کی ہلچل سی تھی، وہ بے خبر تھے کہ ان سے چند میل دور قیامت آکر گزر چکی تھی، چوکی کے لوگ خیمے میں نماز پڑھنے کیلئے اکٹھے تھے، اسی دوران او پی نے دوربین سے دو انسانی سروں کو پانی میں ڈوبتے ابھرتے دیکھا، جو چوکی کے بالکل قریب کنارے تک پہنچ گئے تھے، ان میں سے ایک نے پانی سے نکلتے اس طرف دوڑ لگائی جہاں کشتیاں اور انجن تھے، اور دوسرے نے رہائشی خیموں کی طرف بھاگنا اور چلانا شروع کردیا، او پی نے ان جنوں کو پہچان لیا کہ یہ تو یہاں آنے والے مہمانوں میں سے ہیں، جو کل سے سفر میں تھے اور ابھی تک پہنچے نہیں تھے. یونس کنارے کو چھوتے ہی بھوکے شیر کی طرح کشتیوں کی طرف  جھپٹا، وہ آرام کرنے یا مزید وقت ضائع کرنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا، اس نے کتابوں میں لکھے بہادری اور عزم و ہمت  کے الفاظ کو عملی شکل دے دی، شمس کو کہنے لگا کہ، تم جاؤ اور چوکی سے ممکن مدد لیکر اس جگہ آجانا، اور خود اس مجاہد نے اڑھائی من وزنی انجن کو اٹھا کر کشتی میں لگایا، پٹرول ٹینکیاں کشتی میں رکھیں، کشتی کو پانی میں دھکیلا، انجن اسٹارٹ کیا، اور یہ جا وہ جا، یونس حادثے کی سمت آندھی اور طوفان کی رفتار سے تقریباً اڑتا چلا گیا، وہ سلیم صاحب کو زندہ تلاش کر لینا چاہتا تھا، وہ ہر صورت موت کو جیتنے نہیں دینا چاہتا تھا ، شمش نے وہاں جلدی جلدی حادثے کے متعلق بتایا فوراً ایمرجنسی سرچ اینڈ ریسکیو پارٹیاں تشکیل ہوکر حادثے والی جگہ کی طرف روانہ ہونے لگیں ، اسی وقت اس چوکی سے ایمرجنسی سگنل ارد گرد چوکیوں، کراچی اور اسلام آباد کی جانب ارسال کر دیا گیا، ان کارروائیوں کے دوران یونس واپسی کا آدھے سے زیادہ سفر طے کرچکا تھا، پڑوسی ممالک کو روٹین کے مطابق حادثے کی اطلاع دے دی گئی، ہر جگہ سے امدادی ٹیمیں روانہ ہونے لگیں ہیلی-کاپٹر کی اڑان کیلئے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی سے اجازت لی گئی کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں لاپتہ ہونے والوں کیلئے سرچ آپریشن کرے گا، اسے معمول کی جاسوسی یا نگرانی سے تعبیر نہ کیا جائے، 

 سروے کیمپ

 15 جنوری کی صبح

سگنل ہمارے پاس سروے کیمپ میں بھی پہنچ گیا تھا فجر کی نماز پڑھ کر نکلے تھے، کھانا پکانے والے خیموں سے دھواں اور خوشبو نکل کر فضا میں تحلیل ہورہے تھے، سخت سردی سے کپکپاتا جسم چائے کا طلبگار تھا کہ ایک بار پھر پیامبر دوڑتا ہوا آیا، حادثے کی خبر اور جائے حادثہ پر پہنچنے کا پیغام تھا، فوراً چار بندوں کی دو ٹیمیں تشکیل دے کر دو کشتیوں کو وہاں جانے کیلئے تیار کرنے کیلئے دوڑے، کچھ سامان دوڑتے دوڑتے لیا کچھ ادھر ادھر سے ساتھی لیکر آن پہنچے، دو سپیڈ بوٹس منتخب کرکے الگ کیں، میرے ساتھ دوسری ٹیم میں گل شیر تھا، ہم نے انجنوں کے اوپر پڑا ترپال اٹھایا اور سپیڈ بوٹ کے انجن الگ کرنے لگے، جیسے ہی انجن کو اٹھانے کیلئے جھکے اچانک گل شیر دھڑام سے زمین بوس ہوگیا، اندھیرے میں اسکی ڈوبتی ہوئی آواز سنائی دی، کہنے لگا میں مرنے لگا ہوں میں نہیں بچ سکتا، میں سوچنے لگا، یاخدا اس کو کیا ہوگیا ہے ابھی چنگا بھلا پرجوش ساتھ جانے کیلئے پرعزم تھا، اور ابھی یہ کیا اول فول بکنے لگا ہے، میں نے پوچھا کیا ہوا، ایک طرف اشارہ کرکے کہنا لگا وہ دیکھو وہاں، اس سانپ نے مجھے کاٹ لیا ہے، میں اب نہیں بچ سکتا، دراصل جوں ہی ہم نے ترپال اٹھایا تھا، تو ترپال کے اندر سوئے ہوئے سانپ پر گل شیر کا پاؤں آگیا، اس نے افراتفری میں جوتے نہیں پہنے تھے،  سانپ نے پنڈلی کے نیچے پاؤں کے سامنے جوڑ پر کاٹ لیا، وہاں دو ننھے منے سرخ قطرے ابھر آئے تھے، گل شیر نے سانپ کو کاٹتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور سانپ کی دہشت سے اب حوصلہ ہار رہا تھا، میں نے اسے تسلی دی، سگریٹ سے تمباکو نکال کر اس کے منہ میں ٹھونسا، کہ اس طرح ایک دو بار الٹی کرنے سے اس کی طبعیت سنبھلے، زہر کا اثر کم ہو لیکن ندارد، وہ بس جیسے آخری وصیتیں کرنے میں مصروف تھا، ایک ساتھی کو کچن کی طرف دوڑایا، کہ باورچی سے گرم گھی لیکر آ اس کو پلانے سے شاید الٹی کرے، وہاں ڈاکٹر تو نہیں تھا ایک میڈیکل اسسٹنٹ تھا، وہ دوڑا چلا آیا ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کی، لیکن اس کی حالت تشویشناک تھی جس کا علاج اینٹی وینم ٹیکہ تھا، جو اسوقت تک نہیں لگایا جاسکتا جب تک صد فیصد کنفرم نہ ہوجائے کہ زہر خون میں سرایت کرگیا ہے، صبح سویرے ایک سگنل کہیں سے آیا تھا اور اب ایک سگنل یہاں سے بن رہا تھا، گل شیر کی حالت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بگڑتی جارہی تھی، وہ جیسے خود مرنے پر بضد تھا، اب کہاں جائیں ہیلی یہاں تک آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا، اور گل شیر کو یہاں سے جلدی سے جلدی بھی شفٹ کریں تو کئی گھنٹوں کا طویل سفر تھا، سگنل کا جواب آیا گل شیر کو مزید کوئی تاخیر کیے حادثے والی جگہ پر پہنچایا جائے، جہاں سرچ آپریشن کا ہیلی کاپٹر اسکو آگے ہسپتال لے جائے گا ، کشتیاں تو تیار تھیں چار کی بجائے پانچ بندے ہوگئے ایک میں گل شیر کو لٹایا گیا، اس دن برق رفتاری کی مثال ہم پر مصداق آرہی تھی، کب نکلے اور کب پہنچے کچھ پتا نہیں چلا. جائے حادثہ پر پہنچے گل شیر اور مردہ سانپ جو تھیلی میں تھا انہیں ہیلی کاپٹر والوں کے حوالے کیا گیا، اور وہ گل شیر کو لیکر دوسری منزل کی جانب پرواز کر گئے ، اب ہم اس جگہ تھے جہاں رات موت کا راج تھا، جائے حادثہ کو دیکھا پانی پر سامان کی باقیات دائروں کی صورت میں گردش کررہی تھی، رات ملنے والا سامان اور افراد سوائے سلیم صاحب کے یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوچکے تھے،  وہ تقریباً سب اللّٰه کے کرم سے زندہ اور کچھ بہتر حالت میں تھے، دو ہیلی کاپٹر تھے ایک گل شیر کو لے گیا اور دوسرے میں یونس کو ساتھ بٹھا کر پورا ایریا چھانا جارہا تھا، اس وقت یونس اس علاقے پر ایک مستند اتھارٹی بن چکا تھا، اس کے ساتھ مزید ستم ظریفی دیکھیے ہیلی والے تو اپنی سہولت کے مطابق تبدیل ہوتے رہے، لیکن نیم مردہ یونس جو بھوک پیاس سے بے نیاز تھا نیند کرنا وہ بھول چکا تھا اس کو انہوں نے چوبیس گھنٹے ساتھ ہی رکھا، اس مٹی کے مادھو نے نہ خود سے اپنی حالت کا شکوہ کیا اور نہ کسی کو خیال آیا، ابتدا میں کوئی بھی صحیح طرح اس حادثے کی جزئیات سے واقف نہ تھا، بچنے والوں کو ہسپتال میں ذہنی اور جسمانی آرام میں رکھا گیا، شمس اور ثقلین بھی انکے ساتھ جاچکے تھے ، پیچھے گمنام ہیرو اکیلا ہی تھا، سلیم صاحب اور ہوڑا تاحال مل نہیں سکے، کشتیوں، ہوور کرافٹ اور ہیلی سے تلاش جاری تھی، سرچ اینڈ ریسکیو پلان پہلے دن کے بعد مزید سات دن کا رکھا گیا تھا، سات دنوں کے چوبیس گھنٹے بلا تعطل یہ تلاش جاری رہنی تھی، کھانے وغیرہ کیلئے قریبی چوکی پر پندرہ سے بیس منٹ جانے کا وقت ہوتا تھا، باقی وقت کشتیوں اور پانی میں ہی بسر ہورہا تھا، یہ سرچ آپریشن کوئی 100 مربع کلومیٹر یا شاید اس سے کچھ زیادہ علاقے میں باقاعدہ طور پر ہو رہا تھا،  مچھیروں اور دوسرے قریبی ممالک کو بتا دیا گیا تھا کہ ہمارا ایک جوان سمندر میں لاپتہ ہے، وہاں دن رات تلاش کرکے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ڈھونڈ لی گئی، دور دراز مینگرووز میں پھنسی ہوئی اشیاء بھی مل گئی تھیں، لیکن نہ ملے تو سلیم صاحب اور ہوڑا، سورج نکل نہیں رہا تھا، پانی کی اوپری سطح سے گز ڈیڑھ گز نیچے بالکل تاریکی تھی، جہاں مصنوعی روشنیوں سے بھی غوطہ خور کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہورہے تھے، سردی اور طغیانی ایک طرف رکاوٹ تھی تو تاریکی دوسری جانب، تیسرے یا چوتھے دن کراچی سے ایک ہائی کمانڈ کا وفد آیا انہوں نے جیسے ہی یونس کو دیکھا تو حیران و پریشان رہ گئے، کیونکہ وہ ایک چلتا پھرتا روبوٹ بن گیا تھا، جس کی ساکت آنکھیں ہی بس کھلی ہوئی تھیں، باقی جسم بے جان ہوچکا تھا، انہوں نے یہاں کے سرچ کمانڈرز کی خوب کلاس لی کہ، کسی کو فکر نہیں ہے کہ، اس لاپرواہی سے اس کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بچ جانے والے کو مزید مارنا کہاں کا دستور ہے، یونس کو فوراً وہاں سے الگ کیا گیا، جیسے ہی اس کو آرام دہ ماحول میسر ہوا، وہ تقریباً تین دن سے بھی زیادہ سویا رہا . سلیم صاحب کے گھر اطلاع دے دی گئی کہ، وہ ایک حادثے میں لاپتہ ہوچکے ہیں، ان کی تلاش جاری ہے، آٹھویں دن تک اگر تلاش نتیجہ خیز ثابت ہوئی تو ٹھیک ورنہ آٹھویں دن شہید قرار دیکر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی، ہوڑا مل گیا اسلحہ اور دیگر سامان نکال لیا گیا لیکن سلیم صاحب تاحال لاپتہ تھے، جب سلیم صاحب کے گھر اطلاع دی گئی تو نئی نویلی دلہن کے دل پر کیا بیتی ہوگی، خیر سلیم کی بوڑھی ماں اور بیوی نے وہاں جانے کی خواہش کا اظہار کیا، کہ ہم وہ جگہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں یہ قیامت خیز حادثہ ہوا تھا، سرکار کے مطابق وہ وہاں تو نہیں جاسکتے، ایک تو موسم ناموافق تھا، دوسرا وہاں ابھی تلاش بھی جاری تھی، اس لیے ان کو کہا گیا خشکی کا وہ قطعہ جہاں آخری بار وہ ٹھہرے اور جہاں سے سمندری سفر شروع کیا تھا، وہاں تک آپ کو لے جانے کا بندوبست کردیتے ہیں، سرچ آپریشن کا ساتواں دن تھا، بوڑھی ماں اور اسکی بہو کو وہاں لایا گیا، انہوں نے اس آخری مقام پر دو رکعت نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، پردے کا انتظام کیا گیا، جیٹی پر انہوں نے نماز ادا کی، سلیم صاحب کی بیوی نے ایک کاغذ کا تہہ شدہ ٹکڑا دیا، کہ اس میں میرے سلیم کے نام ایک پیغام ہے،  اسے کھولے بغیر، آپ یہ رقعہ کسی وزن دار چیز کے ساتھ باندھ کر عین اس جگہ گرا دیجئیے گا جہاں یہ المناک حادثہ رونما ہوا تھا، ان کی خواہش کا احترام کیا گیا، اور وہ خط پتھر سے باندھ کر وہاں گرا دیا گیا، یہ ساتواں روز تھا، اور اگلے دن جو بھی نتیجہ ہو تلاش باقاعدہ طور پر بحکم سرکار ختم ہوجانی تھی.

جاری ہے


        

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں