دبستان لکھنؤ کس حد تک اپنے معاشرے اور ماحول کا عکاس
اورنگزیب عالمگیر کی وفات 1707 میں ہوئی اور اس کے بعد مغلیہ سلطنت شکست و ریخت کا شکار ہوگئی بادشاہ نااہل اور آرام و آسائش شراب وشاہد کے دلدادہ تھے فوج کم ہمت اور کمزور تھی غیر مسلم قوتیں اور مسلمانوں کے خیالات کے فرقے بھی دشمنوں کے طرف دار ہو گئے سکھ جاٹ اور مرہٹے طاقت پکڑ گئے اور وہ چھاپہ مار جنگ کے ذریعے شاہی افواج پر زلمے لگانے لگے یہ صورتحال دیکھ کر صوبے مرکز سے علیحدہ ہونے لگے ان میں اودھ بھی شامل تھا۔
نوابان اودھ اور دولت کی فراوانی
سکھوں جاٹوں اور مرہٹوں کے حملوں کا نشانہ دہلی تھی اودھ ان سے بچا ہوا تھا اس لئے اودھ امن کا گہوارہ بن گیا ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تاجر سوداگر صنعتکار ساہوکار وغیرہ آنے لگے اور لکھنؤ شہر پھیلتا چلا گیا تجارت بڑھنے سے مزید اور لوگ آئے اور افلاس کے مارے لوگ لکھنؤ آکر مالا مال ہو گئے ملک میں امن و امان تھا کیونکہ جنگ کے بعد انگریزوں نے اودھ کی دیوانی پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کا دفاع بھی ان کے پاس تھا یہ بہت زرخیز علاقہ تھا تجارت صنعت و حرفت کی وجہ سے روپے کی فراوانی تھی شاہان اودھ بھی دل کھول کر علماء و فضلاء و شعراءکی قدردانی کرتے تھے یہ مثل مشہور تھی کہ جس کو نہ دے مولا اسے دے آصف الدولہ!
لکھنؤی معاشرہ
لکھنوی معاشرے کے اجزائے ترکیبی میں تین تہذیبوں نے مرکزی عناصر کی حیثیت حاصل کی ایرانی تہذیب ہندوستانی تہذیب فرانسیسی تہذیب یہ تینوں عناصر گھل مل کر یکجان ہوئے تو لکھنوی تہذیب وجود میں آئی دولت کی ریل پیل کی وجہ سے نوابان اودھ عیش و عشرت کے دلدادہ تھے کی شیعہ مذہب کی سرپرستی کی وجہ سے ایران سے علماء و ادباء اور شعراء کی آمد جاری تھی اس طرح لکھنؤ علم و ادب کا گہوارہ بن گیا۔
لکھنوی معاشرے کی سب سے بڑی خصوصیت تکلف و تصنع تھا وہ لباس و طعام میں تکلف برتتے تھے مثلا ایک باورچی بادام کے چاول تراشتے اور پستے سے مونگ کی دال بنانے کے بعد ان سے کھچڑی پکاتا تھا اس کے علاوہ بریانی متنجن اور قورمہ قلیہ وغیرہ میں اختراعات ایجاد کی گئی روٹیوں میں باقرخانی شیرمال تافتان گاوزبان ان کی تنکی وغیرہ میں تبدیلیاں پیدا کی گئیں۔ طوائفوں کو اہم مقام حاصل تھا اکثر طوائفیں ڈیرے دار تھیں یعنی وہ نوابان لکھنو کے ہمراہ اپنے ڈیرے لے کر چلا کرتی تھی نصیرالدین حیدر کا دل بہلانے کے لیے ہر وقت حسین عورتیں موجود رہتی تھیں جو جلسہ والیاں کہلاتی تھی واجد علی شاہ نے رنگ رلیاں منانے کے لئے پری خانہ بنوایا تھا جہاں عورتوں کو رقص و موسیقی کی تعلیم دی جاتی تھی۔
لکھنوی ظاہری شان و شوکت پر مرتے تھے اس لیے ان میں نمائش کا رجحان تھا چنانچہ شادی بیاہ کی تقریبات میں روپیہ لٹایا جاتا تھا لکھنوی معاشرہ نودولتیوں کا تھا اور وہ دولت کی نمائش کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے لکھنوی تہذیب کے بہترین نمونے فسانہ عجائب اور فسانہ آزاد میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
لکھنوئی شاعری معاشرے کی عکاس
لکھنوی معاشرہ دولت مند تھا تکلف و تصنع ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا وہ نمائش پسند تھے وہ نمود و نام کی خاطر روپیہ پانی کی طرح بہا نہ جانتے تھے اس کا اثر شاعری پر بھی ہوا کیونکہ شاعری اپنے معاشرے کا عکاس ہوتی ہے۔لکھنو کی شاعری کا دبستان دہلی والوں کے آنے سے قائم ہوا لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے دہلی کی خصوصیات کو ترک کرنا شروع کیا انہوں نے اشعار کو مرصع کرنے کے لیے فارسی تراکیب کا بے تحاشہ استعمال کیا عوام ہر جدید چیز کو لذیذ سمجھتے تھے۔اس لئے رہتی کی ایجاد سے انہوں نے جان صاحب کی قدردانی کی۔
لکھنوی شاعری کی خصوصیات میں بے جوڑ فارسیۃ عربیۃ قافیہ پیمائی رعایت لفظی تشبیہات و استعارات کا استعمال الفاظ و محاورات کو محض ان کی نشست دکھانے کے لئے باندھنا عامیانہ اور مبتذل مضامین کی کثرت نازک خیالی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔
ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے لکھنوی شاعری کی مندرجہ ذیل خصوصیات کا انکشاف کیا ہے۔
- فارسی عربی الفاظ کی کثرت
- قافیہ پیمائی
- رعایت لفظی ضلع جگت اور مراعات النظیر کی کثرت۔
- مفہوم الرثاء اور رنگین بندش اور اس سے بلاغت پیدا کرنے کی کوشش۔
- حرف تشبیہ استعارہ کا استعمال
- شاعری میں ابتذال اور یعنی وغیرہ
تمام مندرجہ بالا خصوصیا ت میں لکھنوی معاشرت کی عکاسی ہوتی ہے۔
