رسولوں پر ایمان لانا انتخاب و تحریر مسعودہ ریاض

 

﷽۔۔۔

اَلسَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔۔۔۔۔۔

چوتھا رکن: رسولوں پر ایمان لانا

۱۔ رسولوں پر ایمان لانا: اس پختہ اعتقاد کا نام ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے اپنے پیغامات واحکامات پہنچانے کے لئے کچھ رسولوں (پیغمبروں) کو منتخب فرمایا، اور جس شخص نے ان کی فرمانبرداری کی وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جس نے ان کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا اور اللّٰه تعالیٰ نے ان کی طرف جو کچھ نازل فرمایا انہوں نے اسے مخلوق تک واضح طور پر پہنچا دیا۔ اس میں نہ تو انہوں نے کچھ تبدیلی کی اور نہ ہی کچھ چھپایا اور انہوں نے امانت کو ادا کر دیا۔ انہوں نے امت کی خیر خواہی کی اور اللّٰه تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے کا حق ادا کر دیا اور لوگوں پر حجت قائم کر دی۔

اللّٰه تعالیٰ نے انبیاء و رسل علیہم السلام میں سے جن کے نام ہمارے لئے ذکر کیے ہیں ان پر  اور جن کے نام ذکر نہیں کیے ان پر بھی ایمان لانا ہم پر لازم ہے۔

۱۔ حقیقتِ نبوت

  خالق اور مخلوق کے درمیان خالق کی شریعت کو پہنچانے کا جو واسطہ ہے اسے نبوت کہا جاتا ہے۔  اللّٰه تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے اس کیلئے منتخب فرمالیتا ہے۔ انتخاب کرنے کا یہ اختیار اللّٰه کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔

ارشاد ربانی ہے: 

(ٱللّٰه يَصۡطَفِي مِنَ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ ٱلنَّاسِۚ إِنَّ ٱللّٰهَ سَمِيعۢ بَصِير )٧٥

ترجمہ :’’فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللّٰه چن لیتا ہے، بے شک اللّٰه تعالیٰ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘

اور نبوت وہبی (عطائی) ہوتی ہے کسبی نہیں، بَاِیں معنی کہ اسے کثرتِ عبادت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ نبی کے اختیار یا طلب کرنے سے ملتی ہے بلکہ یہ تو درحقیقت ایک انتخاب ہے جو کہ صرف اللّٰه کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(ٱللَّه يَجۡتَبِيٓ إِلَيۡهِ مَن يَشَآء وَيَهۡدِيٓ إِلَيۡهِ مَن ينِيب ١٣)

ترجمہ’’اللّٰه تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے۔‘‘

۲۔ رسولوں کی بعثت میں حکمت

   اللّٰه تعالیٰ نے رسولوں کو مختلف حکمتوں کے پیش نظر مبعوث فرمایا، 

ان میں سے چند حکمتیں یہ ہیں:

1..انسانوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت پر لگانا اور بندگئ مخلوق کی غلامی کا طوق اتار کر عبادت رب العباد کی آزادی عطا کرنا اوراس عظیم مقصد کی یاد دہانی کروانا جس کیلئے اللّٰه تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے، اور وہ اس کی عبادت اور وحدانیت ہے ۔

ارشاد ربانی ہے: 

(وَلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِي كلِّ أمَّة رَّسولًا أَنِ ٱعۡبدواْ ٱللّٰهَ وَٱجۡتَنِبواْ ٱلطَّٰغوتَۖ )٣٦

ترجمہ :’’اور یقیناًہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللّٰه تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام باطل معبودوں سے بچو۔‘‘

2.. رسولوں کو بھیج کر لوگوں پر حجت قائم کرنا۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

(رّسلا مّبَشِّرِينَ وَمنذِرِينَ لِئَلَّا يَكونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللّٰهِ حجَّةۢ بَعۡدَ ٱلرّسلِۚ وَكَانَ ٱللّٰه عَزِيزًا حَكِيما ١٦٥ )

ترجمہ : ’’ہم نے انہیں رسول بنایا ہے۔ خوشخبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللّٰه تعالیٰ پر کوئی حجت نہ رہ جائے۔ اللّٰه تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے۔‘‘

3.. بعض غیبی امور کو بیان کرنا۔ 

جن کا ادراک لوگ اپنی عقلوں سے نہیں کر سکتے۔

مثلا اللّٰه تعالیٰ کے اسماء وصفات، فرشتے، قیامت کے دن سے پہلے واقع ہونے والے امور، روزِ قیامت، حساب وکتاب، جنت و دوزخ وغیرہ۔

4.. رسولوں کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی امتوں کے سامنے زندگی گذارنے کا ایک بہترین نمونہ پیش کریں ۔

فرمان الٰہی ہے: 

(أوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهۖ فَبِهدَىٰهم ٱقۡتَدِهۡۗ ٩٠)

 ترجمہ : ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللّٰه تعالیٰ نے ہدایت دی ہے پس آپ بھی انہیں کے راستے کی پیروی کیجئے۔‘‘

اور فرمایا:

(لَقَدۡ كَانَ لَكمۡ فِيهِمۡ أسۡوَةٌ حَسَنَة٦)

ترجمہ:’’یقیناًتمہارے لئے ان لوگوں میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘

6.. لوگوں کے نفوس کی اصلاح، اور ان کا تزکیہ کرنا، اور ہر اس چیز سے ڈرانا جو انہیں ہلاک کرنے والی ہے ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے: 

(هوَ ٱلَّذِي بَعَثَ فِي ٱلۡأمِّيِّ‍ۧنَ رَسولا مِّنۡهمۡ يَتۡلواْ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰتِهِۦ وَيزَكِّيهِمۡ وَيعَلِّمهم ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَإِن كَانواْ مِن قَبۡل لَفِي ضَلَٰل مّبِين )٢

’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے، اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے۔‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: 

(إِنَّمَا بعِثْت لِأتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأخْلاَقِ)

یعنی ’’میں یقیناً اچھے اور پاکیزہ اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘

۳۔ رسولوں کی ذمہ داریاں

انبیاء ورسل علیہم السلام کو بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

۱۔ امورِ شریعت کی تبلیغ کرنا اور لوگوں کو غیر اللّٰه کی عبادت سے ہٹا کر صرف اللّٰه تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلانا۔

ارشاد ربانی ہے: 

(ٱلَّذِينَ يبَلِّغونَ رِسَٰلَٰتِ ٱللَّهِ وَيَخۡشَوۡنَه وَلَا يَخۡشَوۡنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبا ٣٩ )

ترجمہ : ’’یہ سب ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ حساب لینے کیلئے کافی ہے۔‘‘

۲۔ جو دین نازل کیا گیا ہے اس کی وضاحت کرنا۔

فرمان باری تعالیٰ ہے: 

(وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهمۡ يَتَفَكَّرونَ )٤٤

ترجمہ : ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (کتاب) کو اتارا تاکہ لوگوں کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور وفکر کریں۔‘‘

۳۔امت کو برائی سے ڈرانا، ان کی خیر وبھلائی کی طرف راہنمائی کرنا، ان کو ثواب کی بشارت دینا اور سزا سے ڈرانا۔

فرمان الٰہی ہے: (رُسُلاً مّبَشِّرِينَ وَمنذِرِينَ ١٦٥ )

ترجمہ : ’’ہم نے رسولوں کو خوشخبریاں دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا۔‘‘

۴۔اقوال وافعال میں پاکیزہ نمونہ اور اسوۂ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح کرنا۔

۵۔ لوگوں کے درمیان اللّٰه تعالیٰ کی شریعت کا نفاذ اور اس کی عملی تطبیق کرنا۔

۶۔ قیامت کے دن رسولوں کا اپنی امتوں پر گواہی دینا کہ انہوں نے ان کو اللّٰه تعالیٰ کا پیغام واضح طور پر پہنچادیا تھا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(فَكَيۡفَ إِذَا جِئۡنَا مِن كلِّ أمَّةِۢ بِشَهِيد وَجِئۡنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰٓؤلَآءِ شَهِيدٗا٤١)

ترجمہ : ’’پس اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے ، اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔‘‘

۴۔تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کا دین اسلام ہی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:            

( إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلۡإِسۡلَٰمۗ)١٩

ترجمہ : ’’بے شک اللّٰه تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔‘‘

اورتمام انبیاء علیہم السلام ایک اللّٰه کی عبادت کی طرف بلاتے اور غیر اللّٰه کی عبادت چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے۔ اگرچہ ان کی شریعتیں اور احکام مختلف تھے لیکن وہ سب کے سب ایک اساس و بنیاد پر متفق تھے جو کہ توحید ہے۔

اور حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : 

(اَلأنْبِیَاء إِخْوَۃ لِعَلاَّتٍ أمَّهاتهمْ شَتّٰی وَدِیْنهم وَاحِدٌ)

یعنی ’’تمام انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں (جن کا باپ ایک ہے اور ) مائیں الگ الگ ہیں، اور ان سب کا دین ایک ہے۔“

 ۵۔ تمام رسول بشر ہیں اور انہیں علم غیب بھی نہیں ہے۔

علم غیب اللّٰه تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہے نہ کہ انبیاء علیہم السلام کی صفات میں سے۔ اس لئے کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی تھے۔ وہ کھاتے بھی تھے۔ پیتے بھی تھے۔ شادی بھی کرتے تھے۔ سوتے بھی تھے۔ بیمار بھی ہوتے تھے اور وہ تھکاوٹ بھی محسوس کرتے تھے۔

فرمان الٰہی ہے: 

(وَمَآ أَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنَ ٱلۡمرۡسَلِينَ إِلَّآ إِنَّهمۡ لَيَأۡكلونَ ٱلطَّعَامَ وَيَمۡشونَ فِي ٱلۡأَسۡوَاقِۗ )٢٠

ترجمہ : ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے تھے۔‘‘

اور فرمایا: (وَلَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رسلا مِّن قَبۡلِكَ وَجَعَلۡنَا لَهمۡ أَزۡوَٰجا وَذرِّيَّة) ٣٨ترجمہ : ’’ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔‘‘

اور انہیں بھی انسانوں کی طرح خوشی و غمی، مشقت و آسانی اور ہشاش و بشاش ہونا جیسے عوارض لاحق ہوتے تھے۔

اور انبیاء علیہم السلام علم غیب بھی نہیں رکھتے بجز اس کے کہ جس کی اللّٰه تعالیٰ ان کو خبر دے۔

فرمان الٰہی ہے: 

(عالِم ٱلۡغَيۡبِ فَلَا يظۡهِر عَلَىٰ غَيۡبِهِۦٓ أَحَدًا ٢٦ إِلَّا مَنِ ٱرۡتَضَىٰ مِن رَّسول فَإِنَّه يَسۡلك مِنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ رَصَدا) ٢٧ 

ترجمہ:’’وہی غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے۔ ‘‘

٦۔  رسولوں کا معصوم ہونا

  اللّٰه تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اس کی تبلیغ کیلئے کائنات میں سے افضل، اور پیدائشی اور اخلاقی اعتبار سے اکمل انسانوں کا انتخاب کیا، اور انہیں کبیرہ گناہوں سے معصوم اور عیوب ونقائص سے مبرا بنایا تاکہ وہ اللّٰه تعالیٰ کی وحی کو اپنی امّتوں تک پہنچائیں، لہذا وہ باتفاق امت تبلیغِ دین میں معصوم ہیں۔

ارشاد ربانی ہے:  

(يَٰٓأَيّهَا ٱلرَّسول بَلِّغۡ مَآ أنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهۚ وَٱللَّه يَعۡصِمكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ) ٦٧

ترجمہ : ’’اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللّٰه تعالیٰ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللّٰه تعالیٰ ہی لوگوں سے بچاتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

(ٱلَّذِينَ يبَلِّغونَ رِسَٰلَٰتِ ٱللّٰهِ وَيَخۡشَوۡنَه وَلَا يَخۡشَوۡنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ )٣٩

ترجمہ : ’’یہ سب ایسے تھے کہ اللّٰه تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اسی سے ڈرتے تھے اور اللّٰه تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے۔‘‘

اور فرمایا: 

(لِّيَعۡلَمَ أَن قَدۡ أَبۡلَغواْ رِسَٰلَٰتِ رَبِّهِمۡ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيۡهِمۡ وَأَحۡصَىٰ كلَّ شَيۡءٍ عَدَدَۢا ٢٨)

’’تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچادیا ہے اور اس نے ان کے آس پاس (کی تمام چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے۔‘‘

اور جب کبھی کسی نبی سے کوئی معمولی غلطی سرزد ہوئی جس کا تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا، اللّٰه تعالیٰ نے اسے ان کیلئے بیان فرمادیا، اور انہوں نے اس سے فوراً توبہ کرلی اور اللّٰه تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیا، چنانچہ وہ معمولی غلطیاں ایسے ہوگئیں کہ گویا ان کا وجود ہی نہ تھا۔

۷۔انبیاء و رسل علیہم السلام کی تعداد اور سب سے افضل رسول

 انبیاء علیہم السلام کی تعداد کم و بیش ایک لا کھ اورچوبیس ہزار ہے، ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو پندرہ ہے، جیسا کہ حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سوال کیا : اے اللّٰه کے رسول ؟ انبیاء کی تعداد کتنی ہے ؟

نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:

(مِائَة أَلْفٍ وَأَرْبَعَةٌ وَعِشْرونَ أَلْفًا، الرّسل مِنْ ذَلِكَ ثَلَاثمِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ)

ترجمہ : ’’ان کی تعداد ایک لاکھ اور چوبیس ہزار ہے، ان میں سے تین سو پندرہ رسول تھے۔‘‘

ان میں سے بعض کے واقعات اللّٰه تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہمارے لئے بیان فرمائے ہیں اور بعض کے واقعات بیان نہیں کیے جن انبیاء علیہم السلام کے نام اللّٰه تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمائے ہیں، ان کی تعداد پچیس ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَرسلا قَدۡ قَصَصۡنَٰهمۡ عَلَيۡكَ مِن قَبۡل وَرسلا لَّمۡ نَقۡصصۡهمۡ عَلَيۡكَۚ )١٦٤

ترجمہ :’’اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں کیے ۔‘‘

اور فرمایا: (وَتِلۡكَ حجَّتنَآ ءَاتَيۡنَٰهَآ إِبۡرَٰهِيمَ عَلَىٰ قَوۡمِهِۦۚ نَرۡفَع دَرَجَٰت مَّن نَّشَآءۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيم ٨٣ وَوَهَبۡنَا لَهٓ إِسۡحَٰقَ وَيَعۡقوبَۚ كلًّا هَدَيۡنَاۚ وَنوحًا هَدَيۡنَا مِن قَبۡلۖ وَمِن ذرِّيَّتِهِۦ دَاودَ وَسلَيۡمَٰنَ وَأَيّوبَ وَيوسفَ وَموسَىٰ وَهَٰرونَۚ وَكَذَٰلِكَ نَجۡزِي ٱلۡمحۡسِنِينَ ٨٤وَزَكَرِيَّا وَيَحۡيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلۡيَاسَۖ كلّ مِّنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ٨٥وَإِسۡمَٰعِيلَ وَٱلۡيَسَعَ وَيونسَ وَلوطاۚ وَكلّا فَضَّلۡنَا عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ ٨٦ وَمِنۡ ءَابَآئِهِمۡ وَذرِّيَّٰتِهِمۡ وَإِخۡوَٰنِهِمۡۖ وَٱجۡتَبَيۡنَٰهمۡ وَهَدَيۡنَٰهمۡ إِلَىٰ صِرَٰط مّسۡتَقِيم ) ٨٧

ترجمہ :’’یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی، ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے مرتبے بڑھادیتے ہیں، بے شک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے، اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے، ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت دی اور ان کی اولاد میں سے داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں اور زکریا کو اور یحییٰ کو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں سے تھے، اور اسمٰعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط (علیہم السلام) کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی، اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو ، اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کی۔‘‘

اللّٰه تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری عطا کی۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَلَقَدۡ فَضَّلۡنَا بَعۡضَ ٱلنَّبِيِّ‍ۧنَ عَلَىٰ بَعۡضۖ وَءَاتَيۡنَا دَاودَ زَبورا ٥٥ )

ترجمہ :’’ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے۔‘‘

اور اسی طرح اللّٰه تعالیٰ نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی، 

جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(تِلۡكَ ٱلرّسل فَضَّلۡنَا بَعۡضَهمۡ عَلَىٰ بَعۡضۘ)٢٥٣

ترجمہ : ’’یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘

اور ان میں سے افضل وہ رسول ہیں جو اولو العزم (عزم والے، عالی ہمت) کہلاتے ہیں اور وہ یہ ہیں: 

حضرت نوح، 

حضرت ابراہیم، 

حضرت موسیٰ، 

حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور 

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ۔

فرمان الٰہی ہے:

(فَٱصۡبِرۡ كَمَا صَبَرَ أوْلواْ ٱلۡعَزۡمِ مِنَ ٱلرّسلِ)٣٥

’’پس (اے پیغمبر!) آپ ایسا صبر کریں جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا۔‘‘

اور فرمایا:

( وَإِذۡ أَخَذۡنَا مِنَ ٱلنَّبِيِّ‍ۧنَ مِيثَٰقَهمۡ وَمِنكَ وَمِن نّوح وَإِبۡرَٰهِيمَ وَموسَىٰ وَعِيسَى ٱبۡنِ مَرۡيَمَۖ وَأَخَذۡنَا مِنۡهم مِّيثَٰقًا غَلِيظا ٧)

ترجمہ:’’جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہم السلام) سے اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔‘‘

اور حضرت محمد ﷺ سب رسولوں میں سے افضل رسول ہیں اور وہ خاتم النبیین، امام المتقین اور بنی آدم کے سردارہیں اور جب تمام نبی اکٹھے ہوں تو وہ ان کے امام اور جب وہ تشریف لائیں تو وہ ان کے خطیب ہیں اور وہی صاحب مقام محمود ہیں جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے سبھی رشک کریں گے اور آپ ﷺ ہی صاحب لواء الحمد (جن کے پاس حمد کا جھنڈا ہوگا) اور صاحب حوض ہیں جہاں پر لوگ وارد ہونگے۔ اللّٰه تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنے دین کی سب سے افضل شریعت دے کر مبعوث فرمایا اور آپ ﷺ کی امت کو جو لوگوں کے لئے بھیجی گئی، بہترین امت بنایا، آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی امت کو فضائل اور بہترین خوبیوں سے مزین فرمایا جو کہ آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی امت کو سابقہ امتوں سے ممتاز کرتی ہیں، اور آپ ﷺ کی امت دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخری امت ہے لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھائی جانے والی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

 (أَنَا سَیِّد وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَبِیَدِیْ لِوَاء الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَّبِیٍّ یَوْمئذٍ آدَم فَمَنْ سِوَاہ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائي یَوْمَ الْقِیَامَةِ)

 ترجمہ :’’میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردار ہوں گا، اور میرے ہاتھ میں حمد کا عَلم ہوگا اور اس پر مجھے کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ جتنے بھی انبیاء علیہم السلام ہیں سب میرے جھنڈے تلے ہونگے۔‘‘

1… ایمان کیا ہے؟ ایمان کے کتنے رکن ہیں؟

2… رسولوں پر ایمان لانے سے کیا مراد ہے؟

3… رسولوں پر ایمان لانا کون سا رکن ہے؟

4… کن انبیاء و رسل علیہم السلام پر ایمان لانا ہم پر لازم ہے؟

5… حقیقتِ نبوت کیا ہے؟

6… نبوت وہبی ہوتی ہے یا کسبی؟

7… رسولوں کی بعثت میں کیا حکمت ہے؟

8… رسولوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتاٸیں۔

9… تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کا دین کیا ہی ہے؟

10… کیا تمام رسول بشر ہیں؟

11… تمام انبیاء آپس میں کیسے بھائی ہیں؟

12… کیا رسل معصوم ہوتے ہیں؟۔ تفصیل بتاٸیں۔

13…  انبیاء علیہم السلام کی تعداد کم و بیش کتنی ہے؟

14…  انبیاء علیہم السلام میں سے رُسُل کتنے تھے؟

15… کیا اللّٰه تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں انبیاء علیہم السلام کا ذکر کیا ہے؟

16… قرآن پاک میں کتنے انبیاء علیہم السلام کے ناموں کا ذکر ہے؟

17… قرآن کریم میں مذکور انبیاء علیہم السلام کے نام لکھیں۔

18… کیا اللّٰه تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے؟

19… اولو العزم (عزم والے، عالی ہمت) رُسُل کے نام لکھیں۔

20… نبی کریم صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم سے متعلق آخری پیراگراف ضرور پڑھیں اور اس سوال کے جواب میں کمنٹ کریں۔

انتظامیہ ادبیات۔۔۔۔۔۔

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں