زاد راہ از پریم چند کے کردار

زاد راہ از پریم چند کے کردار 

پریم چند افسانوی ادب کے سب سے پہلے معمار ہیں ان سے قبل  افسانہ نویسی کا رواج نہ تھا اگرچہ اس سے قبل پنڈت رتن ناتھ سرشار افسانوی انداز کی داغ بیل ڈال چکے تھے  اور فسانہ آزاد میں غدر کے بعد کی لکھنوی  تہذیب کے زوال کا نقشہ نہایت دلکش انداز میں پیش کر چکے تھے مگر فسانہ آزاد دراصل برائے نام افسانہ ہے وہ ایک غیر مربوط ناول یا داستان زیادہ ہے اور افسانے کی کوئی تکنیک نہیں ہے صرف اندازبیان افسانوی ہے حقیقت یہ ہے کہ اردو میں افسانہ انگریزی کی وساطت سے آیا ہے اور اس نے اس وقت جنم لیا جب ہندوستان سامراجی بیڑیوں سے جکڑا ہوا تھا اور جب ہر طرف ایک قسم کا سیاسی سماجی اقتصادی اور اخلاقی انتشار پھیلا ہواتھا جس نے اس انتشار کو محسوس کیا اور اس کو دور کرنے کی کوشش کی انھوں نے افسانے کو اپنے نظریے کاالہ کار بنایا۔دراصل پریم چندآزادی کے نقیب تھے  ہندوستان کی بیداری اور آزادی میں ان کا زبردست ہاتھ ہے ۔پریم چند کے افسانوں میں انقلاب کے قدموں کی آہٹ آزادی کے نعروں کی گونج اور دم توڑتے ہوئے سپاہیوں کی للکار صاف سنائی دیتی ہے پریم چند کے حب الوطنی کے افسانوں کا آغاز 1906 سے ہوتا ہے اس سے قابل  لارڈکرزن کے عہد میں بنگال تقسیم ہو گیا تھا بنگالی اس تقسیم کے خلاف تھے مجھے پریم چند کو بھی یہ بٹوارا پسند نہ آیا  اور وہ بھی بنگالیوں کی صدائے احتجاج سے متاثر ہوئے اور اسی عہد سے انگریزوں کی پالیسی کے خلاف ہوگئے انہوں نے انیس سو چھ  میں” دنیا کا سب سے انمول رتن” افسانہ لکھا اس میں  انمول رتن خون کے اس قطرے کو کہا گیا ہے جو وطن کی راہ میں بہایا جائے 1909میں پریم چند  نے “سوز وطن “کے نام سے پانچ افسانوں کا مجموعہ شائع کیا ان سارے افسانوں کا رخ غیر ملکی حکمرانوں کی طرف تھاپریم چند کو سوز وطن کی اشاعت کی بناء پر کافی مصائب برداشت کرنا پڑے انسپکٹر مدارس نے ان کو حکم دیا کہ سوز وطن کی پانچ سو جلدوں میں آگ لگا دی جائے ان سے کہا کہ وہ اپنی تقدیر پر خوش ہو کے انگریزی عملداری میں ہیں مغلوں کا راج ہوتا تو ایسے افسانے لکھنے پر ان کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے اس سختی کے باوجود پریم چند انگریزوں کے خلاف افسانے لکھتے رہے اسی دوران جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا اس کے ساتھ ہی گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کا بھی زور بڑھتا گیا یا پریم چندان حالات سے متاثر ہوئے اور اور 1920 میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اب وہ زیادہ سرگرمی کے ساتھ سیاسی افسانے لکھنے لگے آگے اس موقع پر ایک اور بات واضح کر دینا ضروری ہے کانگریس کی تحریک آزادی کے حامی تھے مگروہ گاندھی جی کی عدم تشدد پالیسی کے خلاف  تھے ان کا خیال تھا کہ ہندوستان عدم تشدد کی پالیسی پر چل کر آزادی حاصل نہیں کر سکتا بلکہ تشدد کی پالیسی انگریزوں کے اخراج کے لئے مفید ثابت ہوگی ان کے سامنے دنیا کی تاریخ کیا تھی ان کو معلوم تھا کہ استبدادی حکومتوں کی بیخ کنی صرف تلوار ہی کے ذریعے ہوئی ہے  نیدر لینڈ نے جنگ کرکے اسپین سے حاصل کی تھی اور انگلینڈ  والوں نے چارلس اول کو پھانسی کے تختے پرلٹکا کر جمہوریت کی بنیاد ڈالی تھی وسطی اور جنوبی امریکہ میں کشت و خون کے ذریعے زندگی ایک نئے موڑ پر آئی تھی اس کے علاوہ سب سے زیادہ مثال پریم چند کے سامنے روس کی تھی روسیوں نے 1917 میں زارنکولس دوم اور اس کے خاندان کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا تھا  اور لینن کی قیادت میں سوویت ریپبلک قائم کرلی  تھی دراصل  پریم چند روس کے انقلابات سے بہت متاثر ہوئے تھے ان کی کہانی “پریم آشرم” ان کے اس نظریے کی تائید کرتی ہے جس پر آج روس کے کسانوں کی طرح انقلاب برپا کرنا چاہتا تھا اور کسانوں کی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھتا ہے انہیں تشدد کے نظریات کی جھلک ہم کو ان کے افسانہ “قاتل کی ماں “میں ملتی ہے۔دراصل یہ افسانہ تشدد اور عدم تشدد کے تصادم کا ایک آئینہ ہے رامیشوری عدم تشدد کے قائل ہے اس کا بیٹا ونود تشدد کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتا ہے مختصر یہ کہ ہندوستان کی تحریک آزادی کو پریم چند کے افسانوں سے کافی تقویت پہنچی پریم چند کے افسانوں کے بہت سے پلاٹ ہندوستان کی تحریک آزادی سے وابستہ ہیں اس لحاظ سے ان کے پلاٹ کافی اہم ہیں۔
بعض اوقات پریم چند اپنے پلاٹ کے لیے سنگ وحشت راجپوتوں کی خستہ اور پامال عمارت سے حاصل کرتے ہیں انھوں نے اپنے بعض افسانوں میں ہندو گھرانوں کی قدیم عظمت کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح ان کو اپنا بھولا ہوا افسانہ پھر سے یاد دلایا ہے ان کے افسانوں میں راجپوتوں کی گزشتہ عظمت کو تازہ کیا گیا ہے ان تاریخی افسانوں سے پریم چند نے ہندوؤں کو اسی طرح بیدار کیا جس طرح حالی نے مسدس حالی لکھ کر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا اس سے دونوں ایک ہی کشتی کہ نا خدا ہیں اور دونوں کے یکساں طور پر ڈوبتی ہوئی قوم کو بچانے کی کوشش کی  ہے دراصل ان دونوں کے یہاں تنقید حیات بھی ملتی ہے اور ترغیب عمل بھی۔
پریم چند کے سب سے زیادہ اہم پلاٹ وہ ہیں جن میں ہندوستان کے کسانوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی گئی ہیں پریم چند نے کسانوں کو ان کی گہری نیند سے بیدار کیا اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کی آبادی کا بیشتر حصہ دیہاتوں پر مشتمل ہے اگر دیہات کے باشندے بیدار ہوجاتے ہیں تو ہندوستان کی بیداری یقینی ہے یہاں ایک بات اور قابل توجہ ہے پریم چند کانگریس کی تحریک  سے ایک امر میں اور اختلاف رکھتے تھے کانگریس نے صرف انگریزوں کے خلاف محاذ قائم کیا تھا مگر پریم چند دوسری لڑائی لڑ رہے تھے وہ ایک طرف ہندوستان کو انگریزوں سے نجات دلانا چاہتے تھے دوسری طرف غریبوں کو سرمایہ داری کے پنجے سے چھڑانا چاہتے تھے کانگریس سرمایہ پرست طبقہ کےبل پر آگے بڑھ رہی تھی کو ختم کرنا چاہتے تھے ان کا یہ نقطہ نظر” سر یاترا “کی کہانیوں سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے ان کی کہانیوں میں انہوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں پر بھی بھرپور وار کیا ہے اور اس کے علاوہ” انصاف کی پولیس” افسانہ سرمایہ داری کی شکست کی آواز ہے۔
پریم چند زمیندار, تحصیلدار اور پٹواری پیادے چوکیدار جج وکیل اور ڈاکٹر سب کو کسانوں کا دشمن سمجھتے تھے ان کی نظر میں یہ لوگ غریبوں کی لاش کو نوچنے والے گدھ تھے دراصل وہ ایک ایسے نظام کی تشکیل کے خواہشمند تھے جس میں مساوات و یکسانیت کا بول بالا ہو جہاں افلاس و امارت کا فرق باطل نظر آئے جہاں کسان مزدور اور سماج کے دیگر افراد خوشحال اور فارغ البالی کی زندگی بسر کر سکیں کی حقیقت یہ ہیں جنہوں نے عوام کے دکھے ہوئے دلوں پر ہاتھ رکھا ہے اور اپنے افسانوں کے ذریعے عوامی مسائل کا حل پیش کیا ہے پریم چند کا اصل ہیرو ڈرائنگ روم اور شبستان کی مہکی ہوئی فضا کا انسان نہیں ہے بلکہ کھیت اور کھلیان کی جھلسانے والی دھوپ کا کسان  ہے بعض اوقات پریم چند پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کے افسانوں کا دائرہ بہت تنگ ہے کیونکہ وہ کسانوں کے حدود سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پریم چند نے زیادہ تر ہندوستان کے کسانوں کا حل پیش کیا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حق و باطل کی جنگ ہے اور یہ جنگ ہر ملک میں جاری ہے اس لئے پریم چند کے افسانے مقامی ہونے کے باوجود آفاقی ہیں دراصل مسائل عوامی ہونےکی وجہ سے عالمی بن گئے ہیں اس لئے پریم چند کے افسانوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
پریم چند نے اپنے پلاٹ کی تکمیل کے لیے صحت مند اور جاندار کرداروں کا بھی انتخاب کیا ہےاگر غور سے دیکھا جائے تو پریم چند کے کردار ان کی ذات سے الگ نہیں ہوتے بلکہ انہیں کی شخصیت کا پرتو ہوتے ہیں پریم چند کے کرداروں کے ذریعے ہم ان کے نظریات ہی نہیں معلوم کر سکتے ہیں بلکہ ان کے خانگی حالات سے بھی واقف ہو سکتے ہیں” کپتان” افسانہ میں جگت سنگھ کے باپ کی خصوصیات تقریبا وہی ہیں جو پریم چند کے اپنے باپ کی خصوصیات ہیں” تحریک” افسانہ کے ہیرو کی ماں کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس طرح وہ ماں کی مامتا سے محروم رہ گئے تھے “علحیدگی” افسانہ میں ایک باپ نے دوسری شادی کر لی سوتیلی ماں اپنے سوتیلے بیٹے پر ظلم کرنے لگی خود پریم چند کے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی اور پریم چند کو بھی سوتیلی ماں کا تختہ مشق ستم بننا پڑا  تھا “مستعار گھڑی” افسانے میں بیوی اپنے شوہر کی شکایت کرتی ہے کہ اس کے راج میں اس کو کچھ بھی سکھ نہ ملا شاکی ہیں کیونکہ اول تو پریم چند کی آمدنی قلیل تھی دوسرے گھر کا انتظام پریم چند کی ماں کے ہاتھ میں تھا ایک افسانے کا ہیرو ونود اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے کیونکہ ان دونوں میں نباہ مشکل نظر آتا ہے دے دی تھی کیونکہ وہ اس نظریے کے قائل تھے کہ جب آپس میں نہ بنے تو علحیدگی مناسب ہے “شکوہ شکایت” افسانہ میں بیوی اپنے خاوند کی لاپرواہی کا گلہ کرتی ہے شیو رانی جو پریم چند کی دوسری بیوی تھی ہمیشہ پریم چند کی لاپرواہی کی شاکی ر ہیں غرض کہ پریم چند کے بہت سے افسانے خود ان کی زندگی کے عکس ہیں یہی سبب ہے کہ ان افسانوں کے چند کرداروں  کو پیش کیا گیا ہے جن میں صداقت اور واقعیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
افشاں 
اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں