تحقیق و تحریر:افشاں سحر
سفرنامے
کے رجحان میں تبدیلی
۱۹۴۷ء کے بعد سفرنامے کے رجحان میں نمایاں اور واضح تبدیلی
نظر آتی ہے، ان سفرناموں میں احساسات اور جذبات ذاتی تجربات و تاثرات، داخلی
مشاہدات کا بیان، مقامات و حالات کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے۔ اگر دیکھا
جائے تو سفرنامے کو موضوعات کے اعتبار سے وسعت ملتی ہے۔ سفرنامہ نگار ماحول پر نہ
صرف گہری نظر رکھنا ہے بلکہ وہ خود کو اس ماحول کا حصہ تصور کرتا ہے اور اس ماحول
میں گھل مل جاتا ہے، خود کو اس ماحول سے ہم آہنگ کرلیتا ہے، جذبات و احساسات کا
اظہار بے تکلفی سے کرتا ہے، سفرنامے میں دلچسپی کے تمام لوازم کی آمیزش کرکے اپنے
اندازِ بیاں کو پُرتاثیر بناتا ہے اور اپنے منفرد اندازِ بیاں سے قاری کے دل میں
گھر کرلیتا ہے اور اپنے سفرنامے کو کامیابی سے ہم کنار کرتاہے۔
بیسویں صدی سے سفرنامے کے جدید دور کا آغاز ہوتا ہے اور یہ
ارتقائی منازل تیزی سے طے کرتا ہے۔ پاکستان میں جدید اردو سفرنامہ ۱۹۶۰ء کی دہائی
سے شروع ہوتا ہے اور جب ہم جدید اردو سفرنامہ نگاری کی بات کرتے ہیں تو محمود
نظامی کا سفرنامہ ’’نظرنامہ‘‘ سرِفہرست نظر آتا ہے کیوں کہ انھوں نے قدیم و جدید
سفرنامے کے درمیان ایک حدِّ فاصل قائم کردی انھوں نے مناظر کو ایک ادیب کی نظر سے
دیکھا اور سوچ کے دائرے کو وسیع کیا۔ محمود نظامی کی وجہِ شہرت ان کا سفرنامہ
’’نظرنامہ‘‘ ہے۔ انھوں نے انشایئے مضامین اور ڈرامے بھی لکھے لیکن انھیں زیادہ
شہرت اپنے سفرنامے ’’نظرنامہ‘‘ کی بدولت نصیب ہوئی۔ اس سفرنامے میں نظامی نے اٹلی،
سوئٹزرلینڈ، فرانس، برطانیہ، ریاست ہاے متحدہ امریکا، میکسیکو، کیوبا، جزائر بہاماس
اور کینیڈا کی سیاحت کا احوال لکھا ہے جو
انھوں نے یونیسکو کی ہدایت پر ۱۹۵۳ء میں کی۔ ان کا یہ سفرنامہ ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا،
اس سفرنامے میں چھ عنوانات ہیں جن کی تربیت کچھ اس طرح ہے:
۱۔ حالاتِ زندگی
۲۔ بازار
۳۔ روم نامچہ
۴۔ برسبیلِ لندن
۵۔ شب طلوع پیرس
۶۔ بالآخر
میکسیکو
انھوں نے ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو راولپنڈی سے اپنے سفر کا
آغاز کیا اور ۲۴؍ اپریل ۱۹۵۳ء کو مصر، لبنان، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، فرانس، برطانیہ،
ریاست ہائے امریکا، کینیڈا، جزائر بہاماس، کیوبا اور میکسوا کا چکّر لگا کر واپس
کراچی پہنچے۔ محمود نظامی کے سفرنامے ’’نظرنامہ‘‘ کو اردو ادب میں ایک نمایاں مقام
حاصل ہے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ ان کے سفرنامے نے نہ صرف جدید سفرنامے کی بنیاد
رکھی بلکہ ایک ایسا اندازِ تحریر بھی ایجاد کیا جو معلومات سے زیادہ دل و دماغ کو
اپنے جذباتی سیل طوفان میں بہا لے جاتا ہے اور ان کے اسی اندازِ تحریر نے سفرناموں
کے روایتی انداز اور رجحان کو بدل کر رکھ دیا اور قاری کو اپنی قلمی سحرکاری سے
مسحور کردیا۔ انھوں نے حتی الوسع یہ کوشش کی ہے کہ جو کچھ وہ خود دیکھتے ہیں، قاری
کو بھی دکھائیں۔ اس سفرنامے میں انھوں نے فلیش بیک کی تکنیک استعمال کی ہے، محمود
نظامی کی جزئیات نگاری اسلوب کی انفرادیت نے انھیں اردو کے جدید سفرنامے میں حوالے
کا درجہ عطا کیا۔
جدید اردو سفرنامے میں دوسرا بڑا نام بیگم اختر ریاض الدین
کا ہے، ’’سات سمندر پار‘‘ اور ’’دھنک پر قدم‘‘ ان کے بہترین سفرنامے ہیں۔ انھوں نے ٹوکیو، ماسکو، لینن گراڈ، نیپلز،
قاہرہ، لندن، نیویارک، جزائر ہوائی، میکسیکو اور ہانگ کانگ سبھی کی سیر کی۔ انھوں
نے تمام مقامات کا جائزہ خاص نظر سے لیا اور کسی بھی منظر کو اپنی آنکھوں سے
اوجھل نہیں ہونے دیا۔ بیگم اختر ریاض کے ان دو سفرناموں نے انھیں شہرت کی بلندیوں
تک پہنچایا۔ یہ سفرنامے انھوں نے اپنے خاوند کے ساتھ سرکاری دوروں کے دوران تحریر
کیے۔ سفرنامے پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سفر کے دوران ہر چیز کا بڑی باریک
بینی سے مشاہدہ کیا اور ان تجربات و مشاہدات کو اپنے دلچسپ اسلوب میں قاری تک
پہنچایا۔
’’بیگم
صاحبہ کے سفرناموں میں تفصیلات بڑی بے تکلفی سے کھلتی چلی جاتی ہیں جن سے بعض
اوقات تبسم زیرِ لب کیفیت بھی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے:
۱۔ انگریز ہمارے
دو ’’بہترین‘‘ روایتیں چھوڑ گئے؛ ایک ڈپٹی کمشنر دوسری لپٹن چائے۔
۲۔ جاپانی
کھانا عموماً دیکھنے میں عمدہ اور سننے میں اس سے بھی اچھا ہوتا ہے۔‘‘
جمیل الدین عالی غزل اور اردو دوہے کا معتبر نام ہیں لیکن
انھوں نے تین سفرنامے بھی لکھے؛ ایک ’’تماشا مرے آگے‘‘، ’’دنیا مرے آگے‘‘ اور
’’آئس لینڈ‘‘۔ ان سفرناموں میں انھوں نے جرمنی، ہالینڈ، اٹلی، پیرس، سوئٹزر لینڈ،
ایران، عراق، لبنان، روس، برطانیہ اور فرانس کی سیاحت کے احوال بیان کیے۔ انھوں نے
اپنے سفرناموں میں تاریخی تفصیلات بیان کی ہیں، مختلف ممالک کی سیاحتی صورتِ حال
پر بھی روشنی ڈالی۔ عالی صاحب جن مقامات پر بھی گئے اور جو مناظر بھی انھوں نے
دیکھے، ان سب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور قاری کو بھی شریکِ سفر
کرلیا، ان کے سفرناموں کو کتابی صورت دینے کا سہرا مشفق خواجہ، ابنِ انشا اور جمال
پانی پتی کے سر جاتا ہے۔ ان کے سفرنامے کی ضخامت بہت زیادہ ہوگئی تھی جس کی وجہ سے
ان کے سفرناموں کو دو جلدوں میں منقسم کردیا گیا اور دو الگ الگ سفرنامے کتابی
صورت میں شائع کیے گئے۔
’’جمیل
الدین عالی کی شاعری کا آغاز جدیدیت کے ساتھ ہوتا ہے، انھوں نے غزل کی روایت اور
دوہے کی زبان کے امتزاج سے ایک نیا لب و لہجہ تخلیق کیا ہے۔ منفرد اسلوب کی وجہ سے
اردو شاعری میں ان کی ایک الگ شناخت ہے۔ علاوہ ازیں اردو سفرنامہ نگاری میں بھی
انھیں بلند مقام حاصل ہے۔‘‘
سیّد احتشام حسین ترقی پسند نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں
اور ہم اس بات سے بھی بے خبر نہیں کہ انھوں نے دیگر اصناف میں بھی اپنے جوہر
دکھائے جس میں شاعری اور افسانہ نگاری کی نمایاں ہیں۔ تنقید کے موضوع پر ان کی تصانیف
سے ہم مستفید ہوتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پروفیسر احتشام حسین نے ۱۹۵۲ء میں
ادبی اغراض و مقاصد سے مختلف ممالک کے اسفار کیے اور اپنے مشاہدات و تجربات کو وہ
سپردِ قلم کرتے رہے، ان کا سفرنامہ ’’ساحل و سمندر‘‘ اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔
پروفیسر احتشام حسین نے امریکا و یورپ میں پیش آنے والے واقعات کو نہایت مؤثر
انداز میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے تفصیلاً وہاں کے تفریحی مقامات، تعلیمی اداروں،
بازاروں، میوزیم، لائبریری وغیرہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ سیّد احتشام حسین بنیادی
طور پر ایک مؤرّخ اور نقاد ہیں، ان کے سفرنامے میں بھی اس کی جھلک نمایاں نظر آتی
ہے۔ وہ صرف ایک سیاح کی نگاہ سے ماحول کا جائزہ نہیں لیتے بلکہ ایک مؤرّخ اور نقاد
کی نظر سے حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے پُرتاثیر انداز میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے نظر آتے ہیں، ان کے اس سفرنامے میں
سفرنامے کے رجحان میں رونما ہوتی تبدیلی کو بہ خوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ابنِ انشا کا نام سنتے ہی لبوں پر ایک مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے
جو ان کے شوخ اور مزاحیہ لب و لہجہ اور طرزِ تحریر کی دَین ہے۔ ابنِ انشا کا اپنا
ایک منفرد شوخ اور مزاحیہ اندازِ بیاں ہے جو انھیں انفرادی حیثیت میں تسلیم کرواتی
ہے، ان کے سفرنامے ’’دنیا گول ہے‘‘، ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘، ’’آوارہ گرد کی
ڈائری‘‘ اور ’’ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ اردو سفرناموں میں گراں قدر اضافہ ہے۔
انھوں نے اردو سفرنامے کو اپنے منفرد طنز و مزاح اور شوخ و شریر انداز سے ایک نئی
جہت عطا کی۔ ابنِ انشا اپنے سفرنامے ’’آوارہ گرد کی ڈائری‘‘ میں پیرس، لندن،
جرمنی، ہالینڈ، ویانا، قاہرہ اور لبنان و شام کے شب و روز سے متعارف کروایا۔ ابنِ
انشا نے اپنے نادر اسلوب اور بے تکلف انداز سے اپنے سفرناموں کو منفرد رنگ دیا۔ ان
کے سفرناموں میں تاریخ کو بھی دلچسپ انداز میں پیش کیا اور وہاں کے باشندوں کی
نفسیات شناسی کی بھی کوشش کی۔
مستنصر حسین تارڑ کے ذکر کے بغیر اردو میں جدید سفرنامہ
نگاری کا ذکر ادھورا ہے۔ جدید سفرنامہ نگاری میں ان کا کام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
یہ سچے سیاح کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وہ سفر و سیاحت سے صرف لطف اندوز نہیں
ہوتے بلکہ ان کے پاس اپنے تجربات اور مشاہدات کو بیان کرنے کے لیے دل فریب اور
منفرد اسلوب بھی موجود ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے نہ صرف سفرنامہ نگاری میں نمایاں
مقام حاصل کیا بلکہ وہ ناول، افسانہ، کالم، خطوط اور ڈراما میں بھی اپنی قابلیت کے
جوہر دکھا چکے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے سیاح کے روپ میں کافی شہرت حاصل کی اور ان
کے قارئین کی تعداد قابلِ ذکر ہے۔ ان کے
سفرناموں کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ظاہری رنگینیوں کے ساتھ ساتھ اپنے
سفرناموں میں موجود زندہ کرداروں کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور اپنے سفرناموں میں
اپنی کرداروں کی مدد سے شوخی کا رنگ بھر دیتے ہیں۔
ذوالفقار علی احسن لکھتے ہیں:
’’مستنصر
حسین تارڑ کے سفر قارئین بہت دلچسپی سے پڑھتے ہیں کیوں کہ وہ لوگوں کی نفسیات کو
سمجھتے ہوئے اس میں بارہ مصالحوں کی چاٹ شامل کر دیتے ہیں۔ وہ شاید جانتے ہیں کہ
قاری کیا پڑھنا چاہتا ہے۔‘‘
قمر علی عباسی کو بھی اردو سفرنامہ نگاری میں نمایاں مقام
حاصل ہے قمر علی عباسی کا شمار ایسے ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے کثیر تعداد میں
سفرنامے لکھے۔ ’’لندن لندن‘‘، ’’دلّی دور ہے‘‘، ’’شونار بنگلہ دیش‘‘، ’’میکسیکو کے
میلے‘‘، ’’عمان کے مہمان‘‘، ’’سات ستارے صحرا میں‘‘، ’’شام تجھے سلام‘‘، ’’امریکا
مت جائیو‘‘ وغیرہ ان کے سفرنامے ہیں۔ قمر علی عباسی کے سفرناموں کو پڑھ کر ایک
شگفتگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ نہایت ہلکے
پھلکے انداز میں سلاست اور روانی کے ساتھ واقعات بیان کرتے جاتے ہیں اور
قاری اس میں کہیں گم ہوکر خود کو اسی دنیا کا باسی تصور کرتا ہے اور سفر میں شامل
ہوجاتا ہے اور ان مناظر میں کہیں گم ہوجاتا ہے۔
’’آسمان پر
گہرے سرمئی بادل چھائے ہوئے ہیں، ایک طرف سے سورج کی کرن جھانک رہی ہے، ایک سمت سے
دوسری سمت تک شوخ رنگوں کی خوب صورت دھنک تنی ہے۔ ایسا لگا یہ جنت کا نظارہ ہے۔‘‘
قمر علی عباسی کا اپنا ایک انداز ہے، اردگرد کے ماحول کو
نہایت سادگی سے اپنے منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے اندازِ بیاں کی شگفتگی
اور برجستگی ان کے سفرناموں کو دلچسپ بناتی ہے۔ انھوں نے اپنے سفرناموں میں طرزِ
تحریر سادہ اپنایا، بھاری بھرکم، ثقیل الفاظ سے اجتناب کیا جو بھی دیکھا اور محسوس
کیا، سادگی اور سچائی کے ساتھ بیان کردیا۔
کرنل محمد خان کی ’’بجنگ آمد‘‘ میں بصرہ، بغداد، موصل،
قاہرہ اور طبرق کی سیاحت کا احوال ہے اور
’’بسلامت روی‘‘ میں کرنل صاحب بیروت سے تہران تک محوِ سفر رہے۔ ان دونوں سفرناموں
میں ان کے قلم نے شوخیاں بکھیریں۔ ان کے سفرناموں میں واقعاتی مزاح کی وجہ سے
سفرنامے کے خصائص دب گئے ہیں۔
جب ہم اردو سفرناموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے
کہ اردو میں سفرناموں میں بلاشبہ ترقی کی ہے اور اس میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی
ہے۔ پہلے کی بہ نسبت جدید سفرناموں میں سیاحت کے دوران مشاہدات و تجربات میں ذاتی
تاثرات اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ جدید سفرنامے میں اسلوب اور طرزِ بیاں کو اہمیت
حاصل ہے اور آج کا قاری ایسے سفرناموں کو پسند کرتا ہے جو خوب صورت زبان و بیان
کے ساتھ افسانوی طرز سے بھی مزیّن ہوں اور جب یہ چیز حد سے زیادہ بڑھ جائے تو سفرنامہ افسانہ لگنے
لگتا ہے۔ سفرنامہ نگار سیاحت کے دوران خود کو ہیرو بناکر پیش کرتا ہے اور کسی
دوسرے ملک کی حسینہ اس پر عاشق ہوجاتی ہے۔ رومانوی عنصر کی زیادتی یہ سوچنے پر
مجبور کرتی ہے کہ یہ افسانہ ہے یا سفرنامہ لیکن ہم اس حقیقت سے انکار کرنے سے قاصر
ہیں کہ آج کا قاری ایسے سفرناموں کو ترجیح دیتا ہے جس میں افسانے کی چاشنی ہوتی
ہو لیکن تمام لوازم کے بغیر سفرنامہ ادھورا ہے۔ اس پر افسانوی رنگ غالب نظر آتا
ہے۔
