ہندوستان کی مشہور شاعرہ پروین کیف
انٹرویو:مسعودہ نکہت
پیشکش:افشاں سحر
![]() |
سیکریٹری اردو اکیڈمی بھوپال اور شاعرہ پروین کیف صاحبہ |
یہ انٹرویو مشہور فلمی شاعر جناب کیف بھوپالی کی صاحبزادی پروین کیف کا ہے جو خود ایک اچھی شاعرہ ہیں اور مشاعروں کی مشہور شاعرہ ہیں جنہوں نے حیدرآباد دہلی بھوپال کے علاوہ دبئی کے بھی مشاعرے پڑھے ہیں ان کا مکمل تعارف یہ انٹرویو ہے ملاحظہ فرمائیں
(مسعودہ نکہت – بھوپال)
مسعودہ نکہت :-محترمہ آداب !خیریت؟
پروین کیف :-_ آداب الحمدللہ!
مسعودہ نکہت :-
اجازت ہو تو آپ سے سوالات کا سلسلہ جاری کیا جائے؟
پروین کیف :-جی ضرور!
مسعودہ نکہت :-
سب سے پہلے یہ بتائیں کہ آپ کا خاندان بھوپالی ہے
پروین کیف :-
ہمارے آباؤ اجداد کشمیری شیخ ہیں لیکن اب ہم خالص بھوپالی ہوگئے ہیں
مسعودہ نکہت :-
ہر بھوپالی کے آباؤ اجداد بیرونی ہی ہیں
خیر -چلئے اب آپ سے کچھ آپ کے اور شعرو ادب کے تعلق سے سوالات شروع کئے جائیں
ماشاءاللہ آپ بھوپال کے قدیم ادبی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اس کے علاوہ آپ کے یہاں روحانی شخصیات بھی موجود تھیں اور ہیں
اگر میں غلط نہیں تو آپ صالحہ خانم عاجز صاحبہ کی پوتی ہیں جو ایک نعت گو شاعرہ تھیں؟
پروین کیف :- بہت اچھا سوال ہے جی ہاں میری دادی صالحہ خانم عاجز اپنے نندوئ(نند کے شوہر) استاد ذکی وارثی کی بدولت شعر گوئی کی طرف مائل ہوئیں اور سراج میر خاں سحر سے اصلاح لینے لگیں ان کے انتقال کے بعد ذکی وارثی سے اصلاح لیتی رہیں حمد نعت سے خاص شغف تھا
پلا ساقی مئے وحدت کے دل سرشار ہو جائے
مگر سر شار ایسا ہو نہ پھر ہشیار ہوجائے ۔۔۔
مسعودہ نکہت :_-صالحہ خانم عاجز صاحبہ کے ایک صاحبزادے جو خواجہ صاحب کے نام سے معروف تھے غالباً وہ شاعر نہیں تھے بلکہ معروف روحانی شخصیت تھے کیا یہ سلسلہ خاندانی ہے یا وہ خود کسی بزرگ کے مرید ہوئے تو یہ سلسلہ شروع ہوا؟
پروین کیف :- خواجہ محمد صدیق باقاعدہ تو شاعر نہیں تھے لیکن شعر کہہ لیتے تھے میں نے ان کی لکھی رخصتی دیکھی ہے ۔۔۔۔ خواجہ صاحب پیر نظر علی شاہ ( ٹونک راجستھان ) کے مرید تھے
مسعودہ نکہت :-ماشاءاللہ آپ کے خاندان میں اور بھی قابل ذکر شخصیات ہیں جو اردو زبان و ادب کی ترویج میں بڑا کردار نباہ رہی ہیں تاہم ہم اس شخصیت کا ذکر نہ کریں جو اہل بھوپال کے لئے قابل قدر و احترام ہے تو بے ادبی ہوگی
آپ سمجھ رہی ہیں کہ میں جناب ذکی وارثی مرحوم کا ذکر کر رہی ہوں جن کے تلامیذکا حلقہ بہت وسیع تھا اور بڑے بڑے شعراء حضرات ان کے شاگرد رہےذکی اسکول کا ڈنکا بجتا تھا یہ بتائیں کہ ان سے آپ کا رشتہ کیا ہے؟
پروین کیف :- ذکی وارثی کیف صاحب کے پھوپھا تھے
مسعودہ نکہت :-ذکی صاحب مرحوم جگر مرادآبادی کے جگری دوست تھے جب بھی جگر بھوپال آتے شعری نشستیں طرحی اور غیر طرحی مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے جگر صاحب اور ذکی صاحب کی بیشتر غزلیں طرحی موجود ہیں ایک بزم کہلاء بھی بنائی تھی دونوں نے کیا آپ اس کے بارے میں جانتی ہیں؟
یا ان دونوں کے کوئی یادگار واقعات آپ کے علم میں ہیں اگر ہاں تو سنائیں؟
پروین کیف :-
جی ! تقریباً 88سال پہلے بزم دار الکہلا بنائی تھی جس میں جگر مرادآبادی جوہر قریشی خان شاکر علی شعری بھوپالی وغیرہ اس کے ممبر تھے اس کی ممبر شپ کی فیس صرف ایک تکیہ تھی ۔۔رات کے 9 بجے سے شروع ہوکرصبح 3..4بجےتک ختم ہوتی
تمام اراکین کی حاضری ضروری ہوتی موسلادھار بارش ہو یا کہیں آگ لگ جائے
یہاں کاہلی کی انتہا پیش کرنا مقصود ہوتا
اس میں کوئی کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہیں لیٹ کر لڑھکتا ہوا داخل ہوتا کیونکہ کھڑے اور بیٹھے شخص کو کام کا حکم دیا جاتا تھا
ایک واقعہ بہت مشہور ہے کوئی صاحب لیٹے ہوئے حقہ پی رہے تھے اچانک ایک انگارا ان کے سینے پر گر گیا لیکن کیا مجال وہ ٹس سے مس ہوےءہوں جلن برداشت کرتے رہے اس خوف سے نہیں اٹھے کہ کوئی مجھے کام نہ بتا دے
مسعودہ نکہت :-ذکی صاحب کی چہار بیتی کی شہرت تو بیرون ممالک میں بھی پہنچی تھی بی بی سی اردو سروس پر ان کی چہاربیتی پر ایک پروگرام کئ دن چلا ہے شاید ابھی بھی ان کے خاندان کے لوگ چہار بیتی پروگرامس میں شرکت فرماتے ہیں کیا جگر صاحب نے بھی ذکی صاحب کی چہاربیتی محافل میں کبھی حصہ لیا یا سامع کی حیثیت سے شریک ہوئے؟
پروین کیف :- ذکی وارثی کی چہار بیت کی محفلیں بہت مشہور تھیں جگر مرادآبادی نے کبھی شرکت کی یا نہیں مجھے نہیں معلوم ان کے خاندان میں اب کوئی چہار بیتی کی محافل میں حصہ نہیں لیتا
مسعودہ نکہت ؛-آپ ماشاءاللہ مشہور ترقی پسند شاعر کیف بھوپالی کی صاحبزادی ہیں جو فلمی شاعر بھی تھے خصوصاً پاکیزہ کے نغمات کے لئے انہیں جو لازوال شہرت ملی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا
انکی والدہ محترمہ خود ایک شاعرہ تھیں جو عاشق رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھیں غالباً انہوں نے نعتیہ کلام کے سوا کچھ نہیں لکھا کیونکہ جہاں تک میں نے انکے بارے میں تحقیق کی تو یہی علم ہوا کہ وہ نعت گوئی کا شغف رکھتی تھیں کیونکہ دیگر شعری اصناف مجھے کہیں دستیاب نہیں ہوئیں
میرا سوال یہ ہے کہ عاجز صاحبہ نے کیا اپنے صاحبزادے کیف صاحب کی شعرو ادب میں تربیت کی تھی؟ یا وارثی صاحب سے اصلاح سخن لیتے تھے؟
پروین کیف :- کیف صاحب نے کسی سے اصلاح سخن نہیں لی بقول اختر سعید خان صاحب “بھوپال کی سرزمین پر جہاں اب سے پچاس سال اوپر کی نسل جگر کی آواز میں آواز ملاکر شاعری کے پھول کھارہی تھی وہاں کیف صاحب کی حیثیت ایک ایسے خودرو گلاب کی سی تھی جس کے انداز شگفتن پر بزرگوں کی جبیں پرشکن تھی اور ہم عصروں کی نظر میں حیرت لیکن اس کی مہک کے دونوں قائل تھے “
مسعودہ نکہت :واہ کیا بات ہے بہت خوبصورت آظہار خیال کیا ہے جناب اختر سعید صاحب نے
اب میرا آپ سے اگلا سوال ہیکہ
کیف صاحب یوں تو ترقی پسند شاعر تھے لیکن رومانویت کی ان کے کلام میں باد شمیم و باد نسیم کے خوشگوار جھونکوں کی تازگی موجود ہے کیا یہ فلمی دنیا سے وابستگی کے بعد پیدا ہوئی؟ یہ استفسار اس لئے ہیکہ آپ نے غالباً پی ایچ ڈی کیف صاحب پر کی ہے؟
پروین کیف :- کیف صاحب نے ابتداء ہی سے عشقیہ شاعری کی ہے
مسعودہ نکہت :-کیف صاحب کی شاعری میں بطور ایک قاری نہ کہ بطور صاحبزادی بتائیں کہ آپ کو کیا چیز متاثر کرتی ہے؟
پروین کیف :- کیف صاحب کے کلام میں جو سادگی صداقت شدت احساس فکر کی گہرائی اور نغمگی ہے اس نے مجھے متاثر کیا ہےَ-
مسعودہ نکہت :- کیف صاحب سے محمد یوسف ہما کا کیا رشتہ تھا سنا ہے وہ بھی شاعر تھے؟
پروین کیف :- محمد یوسف ہما صاحب کیف صاحب کے بڑے بھائی کے صاحبزادے تھے یعنی بھتیجے وہ صاحب دیوان شاعر تھے –
مسعودہ نکہت – : کیف صاحب کے بارے میں کافی معلومات فراہم کیں آپ نے لیکن اپنی نانہال کے بارے میں کچھ نہ بتایا
آپ کی والدہ محترمہ کا نام کیا تھا؟ وہ کیا شہر بھوپال ہی سے تھیں؟
پروین کیف :- نہیں وہ شہر بھوپال سے نہیں تھیں بلکہ ان کے والد پانی پت کے پیرزادگان میں سے تھے انکی صاحبزادی تھیں انکا نام افتخار بانو تھا –
مسعودہ نکہت :- اچھا آپ کے نانا محترم پیرزادے تھے؟
پروین کیف :- جی وہ حافظ عزیزالحسن وہاں کی نامور شخصیت تھے گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے بلند پایہ خوش نویس و خطاط تھے چنے کی دال پر مکمل سورہ اخلاص لکھ دیتے تھے اپنے ناخن سے نقش ونگار بنانے میں ماہرتھے بوتل میں عبارت کندہ کردیتے تھے حافظ بھی ایسے کہ سورہ یاسین شریف دوسانسوں میں مکمل تلاوت کرلیتے تھے!
مسعودہ نکہت :- اچھا اب آپ اپنے بارے میں بتائیں کہ آپ کا اصلی نام کیا ہے؟
پروین کیف :- یہی ہے یعنی پروین کیف
مسعودہ نکہت :- آپ کی تعلیمی استعداد کیا ہے؟
پروین کیف :- میں نے پی ایچ ڈی کی ہے
مسعودہ نکہت :- ڈگریاں کس کالج سے حاصل کیں؟
پروین کیف :- سیفیہ کالج سے بی اے کیا
ایم اے مہارانی لکشمی بائی گرلز ڈگری کالج سے کیا!
مسعودہ نکہت :-پی ایچ ڈی کس کے زیر نگرانی کی؟
پروین کیف :- پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صاحب کی نگرانی میں سن 2000 میں کی
مسعودہ نکہت :- یعنی مہارانی لکشمی بائی گرلز کالج ہی سے؟
پروین کیف :- جی!
مسعودہ نکہت :– آپ ایک بہترین شاعرہ ہیں کیا کیف صاحب سے مشورہء سخن کیا آپ نے؟
پروین کیف :- نہیں –
مسعودہ نکہت :-
آپ کے استاد محترم کون ہیں؟
پروین کیف :- رضا رامپوری مرحوم محترم عشرت قادری صاحب اور اب برسوں سے میرے استاد محترم نور محمد یاس صاحب ہیں –
مسعودہ نکہت :-
لیکن آپ نے کہیں لکھا تھا جو میری نظر سے گزرا تھا کہ یعقوب یاور کوئی صاحب آپ کے استاد ہیں لیکن اب آپ یہ بتارہی ہیں کہ رضا رام پوری پھر عشرت قادری صاحب اور اب عرصہ سے نور محمد یاس صاحب سے آپ کو شرف تلمذ حاصل ہے یہاں یعقوب یاور کوئی صاحب کا ذکر نہیں ایسا کیوں؟
پروین کیف :- دراصل بات یہ ہے کہ میں ساتویں یا آٹھویں کلاس سے ٹوٹا پھوٹا لکھا کرتی تھی ایکبار کیف صاحب کو اپنی غزل دکھائی تو انہوں نے یہ کہکر پھاڑ دی کہ شاعری نہیں کہانیاں لکھا کرو میرے ماموں یہ دیکھ کر اباجی پر ناراض تھے بولے کہ آپ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی
میں چھپ چھپ کر لکھتی رہی اور کہیں کہیں میری غزلیں شائع بھی ہوجاتیں
شادی کے بعد میں نے ایک غزل اباجی کو دکھائی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا اخبار میں بھیج دو میں نے بھوپال کے روزنامہ افکار کو ارسال کردی وہاں سے یعقوب یاور کوئی صاحب کاجواب آیا کہ آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں لیکن کچھ فنی خامیاں ہیں آپ کہیں تو انہیں دور کرکے شائع کردیں
اب میرا رو رو کر برا حال تھا جب اباجی سے کہا تو مسکراکر بولے اب اخبار والوں کو پتہ چل گیا کہ غزل تم نے لکھی ہے اگر میں اصلاح کرتا تو سب سمجھتے میں نے لکھ کر دی ہے
تو محترمہ اس طرح پروفیسر یعقوب یاور کوئی صاحب میرے پہلے استاد ہیں
مسعودہ نکہت :-
کیا شاعری کے علاوہ دیگر اصناف ادب پر بھی طبع آزمائی فرماتی ہیں؟
پروین کیف :
جی! نثر میں مضامین لکھتی ہوں اور کتابوں پر تبصرے کئے ہیں
مسعودہ نکہت :-
اپ صنف سخن میں غزل کے علاوہ دیگر اصناف سخن جیسے رباعی تضمین نظم وغیرہ بھی کہتی ہیں اگر ہاں تو کچھ سنائیے؟
پروین کیف :ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں
خود کو وہ کہے کیف کی بیٹی تو کہے
پر کیف و اثر ہو غزل ایسی تو کہے
ہے زعم بہت اس کو سخن سنجی کا
پروین سے کہنا کہ رباعی تو کہے
نظمیں بھی کہی ہیں
لیکن فی الحال سنانے سے قاصر ہوں
مسعودہ نکہت :- کوئی بات نہیں آج نہ سہی پھر کبھی سنادیجئے – اب میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ
آپ اپنی شاعری میں کن خوبیوں پر زور دیتی ہیں؟
پروین کیف :- عام فہم اور سادہ زبان ہو لہجے میں ہلکی سی شوخی اور غزل کا اظہار بیان پر لطف و دلچسپ ہو –
مسعودہ نکہت :-
آپ نے جہاں اپنی رباعی پیش کی ہے تو التماس ہے کہ اپنے کلام سے بھی نوازیں؟
پروین کیف :-
جی ضرور ملاحظہ فرمائیں
مسعودہ نکہت :-
ارشاد!
پروین کیف :-
مجھ پہ الزام ہے جنت سے نکلوانے کا
میں کہ جنت ہی کہا دنیا میں اٹھا لای ہوں
میں نے سب بیچ دیا گھر کی خوشی کی خاطر
کیا وہ مانے گا کہ آنچل کو بچا لایء ہوں
مسعودہ نکہت :-
واہ واہ کیا کہنے
پروین کیف :-
تم آئے ہنسو پولو سامان سفر کھولو
میں یہ نہیں پوچھوں گی میرے لئے کیا لائے
مسعودہ نکہت :-
ارے واہ زبردست
پروین کیف :-
اے مری حیرت مرے وہم و گماں اچھے تو ہو
ہمدم و ہمراز میرے مہرباں اچھے تو ہو
کیف سے بچھڑے ہوے پروین مدت ہو گئی
میں بھی جلدی آؤں گی بابا وہاں اچھے تو ہو
مسعودہ نکہت :-
بہت خوب!
پروین کیف :-
چاند جھانکے جو کچن میں پروین
مجھ سے روٹی نہیں بیلی جاتی
مسعودہ نکہت :-
کمال ہے روٹی نہیں بیلی جاتی واہ
مسعودہ نکہت :- آپ کے چہرے کی مسکراہٹ اور ہنسی آپ کی شوخی کی غماز ہیں یقیناً آپ کے کلام میں بھی محسوس ہوتی ہے
اچھا یہ بتائیں کہ ادب برائے زندگی ادب برائے ادب کس نظریہ کی قائل ہیں؟
پروین کیف :- ادب برائے زندگی
مسعودہ نکہت :-
آپ کی دانست میں آپ کی شاعری میں کیا انفرادیت ہے جسے آپ خود محسوس کرتی ہیں؟
پروین کیف :-
سادگی کے سوا کچھ نہیں!
مسعودہ نکہت :-اپ کس شاعر سے متاثر ہیں اور کیوں؟کسی ایک شاعر کا نام لیجیے
پروین کیف :-کسی ایک شاعر کا نام نہیں لے سکتی
مسعودہ نکہت :-
اچھا پاکستانی شعراء میں آپ کو کون پسند ہے؟
پروین کیف :-
فیض احمد فیض اور فراز
مسعودہ نکہت :-
کسی شاعرہ نے بھی متاثر کیا ہے آپ کو؟
پروین کیف :-
جی! کیوں نہیں پروین شاکر میری پسندیدہ شاعرہ ہیں –
مسعودہ نکہت :-
نثر نگار یا کوئی افسانہ نگار کی تحریریں آپ کو پسند ہیں ؟
پروین کیف :-
جی! بشریٰ رحمان صاحبہ میری پسندیدہ ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں
مسعودہ نکہت :- یقیناً ایک شاعرہ ہیں ہندو پاک کے قلمکاروں کو پڑھتی ہونگی
مسعودہ نکہت :-
قدیم شعراء میں کس سے متاثر ہیں؟
پروین کیف :-
میر تقی میر غالب اور جگر مراد آبادی
مسعودہ نکہت :
جدید شعراء میں آپ کی پسند؟
پروین کیف :-
نور محمد یاس صاحب سعید اختر اور والد محترم کیف صاحب
اپنے ہم عصر شعراء میں کس شاعر کو پسند کرتی ہیں؟
پروین کیف :-
ملک نوید بھوپالی کو
مسعودہ نکہت :-
آپ مشاعروں میں شرکت فرماتی ہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی مشاعرے پڑھتی ہیں آپ کا یادگار مشاعرہ کون سا ہے جسے آپ فراموش نہیں کرپاتی ہیں؟
پروین کیف :
جی! دبئی میں جشنِ آزاد کے سلسلے میں منعقد مشاعرے میں شرکت کی یہ مشاعرہ یادگار اس لئے تھا کہ کیف صاحب کا شعری مجموعہ آہنگ کیف اور مفہوم القرآن کی رسم رونمائی بھی تھی یہ دونوں کتابیں دبئی کے سلیم جعفری صاحب نے شائع کی تھیں اس مشاعرے میں یندوپاک کے مشہور و معروف شعراء شریک تھے یہ 1993 کی بات ہے یہ مشاعرہ میرے لئے یادگار مشاعرہ ہے
(مسعودہ نکہت :-
کیا آپ نے پہلا مشاعرہ کیف صاحب کی زندگی میں پڑھا تھا؟
پروین کیف :-
جی حیدرآباد دکن میں پڑھا تھا-
مسعودہ نکہت :-
آپ کئ ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں کیا ان تنظیموں کے ذریعے زبان و ادب کی ترویج و فروغ میں کوئی اہم رول ادا کیا جارہا ہے؟
پروین کیف :-
سلام کوئی خاص کام نہیں ہورہا ہے شاید کورونا کی وجہ سے کام بند ہےبہت دن سے کوئی شعری و ادبی نشست بھی نہیں ہوئی
مسعودہ نکہت:-
آپ کا کوئی شعری مجموعہ شائع ہوا؟ اگر ہاں تو نام بتائیں
پروین کیف :-
جی! 2013 میں “سفر اک عمر کا” کے عنوان سے میرا شعری مجموعہ شائع ہوا ہے
مسعودہ نکہت :-
سوال آپکا کلام رسائل میں کیوں شائع نہیں ہوتا؟
پروین کیف :-میرا کلام ہندوپاک کے کئ رسائل میں شائع ہوا ہے آج کل کہیں ارسال نہیں کرتی –
مسعودہ نکہت :-
-برصغیر میں اردو کے مستقبل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پروین کیف :-
اردو کے مستقبل کے بارے میں کیا کہوں مایوسی سی چھائی ہوئی ہے –
مسعودہ نکہت -:-
– بطور شاعرہ آپ کی اپنی کوئی ذمہ داری اس زبان کے تئیں ہے کہ نہیں اگر ہے تو اس کے لئے آپ کی جدوجہد کیا ہیں؟
–
پروین کیف :
جی! بالکل اردو زبان کے لئے ہماری ذمہ داری ہے میں اردو رسائل و اخبارات خرید کر پڑھتی ہوں کوئی نئ کتاب آتی ہے تو اس کی چار پانچ جلدیں خرید لیتی ہوں
مسعودہ نکہت :-
آپ نے پی ایچ ڈی کی لیکن سروس نہیں کی اس کا کیاسبب ہے؟
پروین کیف :-
جی بہت اچھا سوال اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں۔۔۔
دیکھئے تعلیم اور سروس دو الگ الگ باتیں ہیں۔۔۔ جب میں نے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے کیا تو پروفیسر آفاق احمد صاحب نے کہا سروس کر لو پی ایچ ڈی تو ہوتی رہے گی ۔۔۔ لیکن میرے شوہر صدیقی صاحب نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میں سروس کے لئے نہیں پڑھوا رہا۔۔ ۔۔ شادی کے وقت میں ہایر سیکینڈری پاس تھی میری آگے کی تعلیم صدیقی صاحب نے بی اے ایم اے اور پی ایچ ڈی۔ کروایء ۔۔
مسعودہ نکہت :-
رنگوں کا شخصیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے اس لئے بتائیں کہ آپ کا پسندیدہ رنگ کونسا ہے؟
پروین کیف :-
مجھے ہلکا گلابی رنگ بہت پسند ہے
مسعودہ نکہت :-
واہ یہ تو میرا بھی پسندیدہ رنگ ہے
اچھا زندگی میں کسی شخصیت سے ملنے کی خواہش؟
پروین کیف :-
نہیں
مسعودہ نکہت :-
کوئی ناقابل فراموش واقعہ جسے کبھی بھول نہیں پاتیں؟
پروین کیف :-
کوئی ایسا واقعہ نہیں!
مسعودہ نکہت :-
آپ کے شوہر کس پیشے سے وابستہ ہیں؟
پروین کیف :- وہ پیشہ سے انجینئر ہیں
مسعودہ نکہت :- آپ کے کتنے بچے ہیں؟
پروین کیف :- دو بیٹے تھے بڑے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے
مسعودہ نکہت :- کوئی بیٹی نہیں؟
پروین کیف :- نہیں
مسعودہ نکہت :- اردو اکیڈمی مدھیہ پردیش بھوپال سے کتنے ایوارڈ حاصل کئے؟
پروین کیف :- اردو اکیڈمی مدھیہ پردیش کی جانب سے مجھے شفا گوالیاری صوبائی ایوارڈ دیا گیا
مسعودہ نکہت :- یقیناً دیگر ادبی تنظیموں سے بھی آپ کو ایوارڈ ملے ہونگے؟
پروین کیف :جی بالکل ملے ہیں
راشٹریہ ہندی سیوی سہسترابدی سمّان
وشوشانتی پریودھک کی جانب سے
اور مقامی ادبی تنظیمات نے بھی اعزازات دئے ہیں
مسعودہ نکہت :-
جس بلاگ کے لئے آپ کا انٹرویو لیا گیا ہے ہے اس کے قارئین کے لئے اور بلاگ کے لئے آپ کچھ کہیں گی؟
پروین کیف :-
جس بلاگ کے لئے انٹرویو ہے اس کی ممنون و متشکر ہوں تفصیل سے گفتگو ہوئی بہت اچھا لگا
اردو زبان سے آپ کی محبت اور اسکی بقاء کے لئے جدوجہد قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے اور قارئین سے بھی یہی التماس ہے کہ اپنی مادری زبان کی ترقی و ترویج میں حصہ لیں –
مسعودہ نکہت :-آپ نے جو اپنا قیمتی وقت
دیا اس کے لئے ممنون ہوں بہت بہت شکریہ
پروین کیف :- بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھ ناچیز کو کسی قابل سمجھا-
مسعودہ نکہت – :
سلامت رہئے اللہ حافظ
پروین کیف :-
اللہ حافظ
![]() |
شاعرہ پروین کیف صاحبہ |
