ضیا ء شہزاد
تحقیق و تحریر:اکرام الحق
انتخاب و پیشکش: افشاں سحر
طبیعت میں متانت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
خدا سے خاص چاہت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
خدا کے خاص بندوں سے تو نسبت خاص ہے ان کی
عبادت میں عقیدت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
ستم دیکھیں کہیں پر بھی نہیں ڈرتے بیاں کرتے
نڈر سی اک شجاعت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
جریدوں میں رسالوں میں بھی ان کا نام چھپتا ہے
قلم کی سب فراست بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
یہاں شوبز حوالوں میں بھی ان کی بات ہوتی ہے
کہ شوبز میں مہارت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
اگر کچھ ٹھان لیتے ہیں نہیں رکتے کسی سے بھی
ارادوں میں قیامت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
وہ سچ کا ساتھ دیتے ہیں اصولوں پر ہی چلتے ہیں
صداقت بھی دیانت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
سبھی کو خاص رکھتے ہیں سبھی سے پیار کرتے ہیں
وفا والی نزاکت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
فصاحت میں بلاغت میں نہیں ثانی ہے ان کا حق
بلا کی بس ذہانت بھی ضیا شہزاد رکھتے ہیں
نہایت افسوس کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ آج معروف شاعر جناب ضیاء شہزاد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ ان کے اعزاز میں یہ کلام جولائی 2020 میں لکھا تھا کہ اس کو ادبی فورم “صبا آداب کہتی ہے” کے ضیاء شہزاد نمبر میں شائع کیا جانا تھا ۔ نہیں معلوم تھا کہ یہ کلام اچانک آج ان کی وفات پر منظر عام پر آئے گا ۔ اللہ کے ہی سب فیصلے ہیں ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ضیاء شہزاد ایک ہمہ جہت شخصیت
ممتاز شاعر جناب ضیاء شہزاد کے حوالے سے کچھ لکھنے سے قبل بہتر ہوگا کہ مختصر مختصر سا ان کے بارے میں بتا دیا جائے اگرچہ ایسی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ان کا اصل نام ضیاءالدین ہے ۔ وہ 27 جنوری 1942 کو باول ، ہریانہ (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے ۔ جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کیا اور اسی پیشے سے خود کو منسلک بھی کیا ۔ وہ مختلف اخبارات و جرائد سے وابستہ رہے ۔ اپنا ذاتی اخبار “قومی اتحاد” جاری کیا ۔بہت سے اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ ماہنامہ “سات رنگ ڈائجسٹ” اور “داستان ڈائجسٹ” کے مدیر رہے ۔ایک ذاتی فلم “دلاری” بھی بنائی ۔جس کے سکرپٹ رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی وہ خود تھے ۔ بہت سی فلموں کے اسکرپٹ اور گانے لکھنے کے علاوہ بہت سے رسائل و جرائد اور ڈائجسٹوں میں افسانے ، مختصر کہانیاں اور قسط وار کہانیاں بھی لکھیں ۔ ان کی جو کتب منظر عام پر آ چکی ہیں ان میں ” یادوں کے اجالے” ، “ہجر کا تماشا” ، “چاند سا چہرہ” ، ” ہجر کے رات دن” شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ کئی کتب زیر اشاعت ہیں جن میں ان کا افسانوی مجموعہ “ہمسفر” اور ناول “بدنام” بھی شامل ہے ۔
جناب ضیاء شہزاد کی شخصیت اور حالات زندگی پر تو بہت سے احباب نے کافی کچھ لکھا ہوگا ۔میری آج کی حاضری کا مقصد ان کے شعری فن کے بارے میں بات کرنا ہے ۔ آئیے ان کی تحریروں بالخصوص ان کی شاعری پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور ان کے کمالات سخن سے مستفید ہوتے ہیں ۔
ترقی پذیر دنیا میں جمہور کے نام پر جن لوگوں نے چور بازاری اور اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور جس طرح وہ عوامی حقوق پامال کرتے ہیں اور جو طبقہ اشرافیہ عوامی نمائندوں کے روپ میں اسمبلیوں میں پہنچتا ہے اور پھر کروڑوں اربوں روپے بناتا چلا جاتا ہے اس پر جناب ضیاء شہزاد کے قلم نے خوب روشنی ڈالی ہے ۔
وہ غریبوں کے ہیں نمائند
جو ہیں مالک کروڑوں اربوں کے
عقل حیران ہے یہ کیسا تضاد
اصل میں وہ ہیں اپنے اپنوں کے
جس طرح انہوں نے مال و دولت اور حرام کی امدنی کو اپنی ایک واردات قلبی میں بیان کیا ہے وہ بھی بہت زیادہ قابل تحسین ہے ۔ “ہیسہ” کے عنوان سے انہوں نے سماج میں مقام و مرتبے کے تعین کے بدلتے ہوئے رویوں کو بہت سخت انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔۔
پیسہ نہیں ہے پاس تو انساں غریب ہے
پیسہ ہو پاس جس کے وہ سب کا حبیب ہے
آیا کہاں سے پیسہ کوئی دیکھتا نہیں
“وی آئی پی” ہے چور بھی اس کا نصیب ہے
جناب ضیاء شہزاد سماجی برائیوں کے خلاف ناصرف صف آراء نظر آتے ہیں بلکہ اپنی قلبی وارداتوں میں ان موضوعات کو بحسن و خوبی نبھاتے دکھائی دیتے ہیں ۔انھوں جس خوبصورتی سے کینہ پروری کی مذمت کرتے ہوئے اس قماش کے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی ہے یہ ان کے قلم کا ہی نمایاں انداز ہے ۔ ایسے لوگ جو منہ پہ کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ اور ہوتے ہیں ان کے بارے میں ان رائے درج ذیل قطعے میں بہت کھل کر سامنے آتی ہے ۔
کینہ پرور ہیں کیسے کیسے لوگ
منہ میں میٹھی زباں رکھ کے ملیں
پیٹھ پیچھے ہو غیبت و بہتان
جب ملاقات ہو تو بانچھیں کھلیں
جناب ضیاء شہزاد کی سیاست پر نظر بہت گہری ہے۔ سماجی اونچ نیچ اور خدا کی ودیعت کردہ حدود کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ان لوگوں پر بھی گہری چوٹ کرتے ہیں جو سیاست کو کاروبار بناتے ہیں اور ان کی تمام تر سیاسی سرگرمیاں بھی اپنے کاروبارئ مقاصد کو تقویت پہنچانے کی غرض سے ہوتی ہیں ۔۔ وہ اس قسم کے لوگوں کو عوام کا رہبر نہیں مانتے ہیں ۔
غریبی اور امیری میں نمایاں فرق ہے یارو
ازل سے جو بھی درجہ ہے برابر ہو نہیں سکتا
تجارت کے لیے شہزاد جو آئے سیاست میں
وہ تاجر ہے کوئی لوگوں کا رہبر ہو نہیں سکتا
صاحبان اقتدار اور حکمرانوں کی لوٹ مار کو وہ اپنے انداز سے دیکھتے ہیں اور بڑی بہادری سے ناصرف اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں بلکہ اس طرح نڈر انداز میں عوام کو آگاہ کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔ ان کی ایسے حکمرانوں کے بارے میں رائے کچھ اس انداز میں سامنے آتی ہے.
جب وسائل پر ہوں قابض حکمراں
خوب چلتی رہتی ہے ان کی دوکاں
چلتی ہے مہنگائی کی چکی بھی خوب
ہوتی ہے لوگوں کے لب پر بس فغاں
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے ان کی عقیدت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اپنے وطن اور بانیان وطن سے وابستگی کس قدر مضبوط اور گہری ہے ۔ مادر ملت کے 123 ویں یوم پیدائش پر انہوں نے اپنی عقیدت کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا ؛
کہنے کو ناتوان رہیں فاطمہ جناح
ہمت میں آسمان رہیں فاطمہ جناح
قائد چلے گئے تو بنیں قوم کی وہ ماں
مشفق و مہربان رہیں فاطمہ جناح
جناب ضیاء شہزاد سیاست میں اصولوں ، ضوابط اور رواداری و ایثار سے کس قدر نسبت رکھتے ہیں اس کا اظہار ان کی مرحوم اصول پسند رہنما اور سیاستدان معراج محمد خان کی وفات کے موقع پر ان سے محبت کا اظہار ہے وہ اپنے تاثرات کا بیان اپنی واردات قلبی میں کچھ یوں کرتے ہیں ؛
سانحہ یہ بھی دیکھنا تھا آج
چھوڑ کر چل دیا ہمیں معراج
زندگی رہنمائی میں گزری
ایسے “لیڈر” کی دنیا ہے محتاج
ممتاز کمپئر، شاعر ، اداکار اور خوش گفتار شخصیت طارق عزیز مرحوم سے ان کی محبت بھی کافی زیادہ تھی ۔ طارق عزیز کی وفات پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا ؛
رخصت ہوئے جہان سے طارق عزیز بھی
سناٹا چھا گیا ہے خبر سن کے الاماں
پیدا نہ ہوگا آدمی باغ و بہار اب
روتا رہے گا ان کے لیے برسوں یہ جہاں
جھوٹے ، ریاکار اور منافق انسان کو وہ ناصرف ناپسند کرتے ہیں بلکہ اس حوالے سے اپنی “واردات قلبی” میں ایسے انسان سے نفرت کا اظہار کچھ یوں کرتے دکھائی دیتے ہیں ؛
ان کے چہروں پر رعونت کی ہے چھاپ
یہ ہیں لوگو صاحبان اقتدار
منہ میں سونے کا نوالہ رکھتے ہیں
اس پہ دعوی غرباء کے ہیں غمگسار
اسی حوالے سے کچھ مزید وہ اپنے قطعہ بعنوان “چھوٹا آدمی” میں کچھ یوں اپنے دلی احساسات کو بیان کرتے ہیں ؛
اشرف المخلوق ہے کہنے کو یوں تو آدمی
پیسے کے بل پر جو اچھلے آدمی چھوٹا ہے وہ
دھمکیاں دیتا ہے جب بھی ہوتا ہے وہ بے نقاب
اس طرح ثابت ہوا یہ کس قدر کھوٹا ہے وہ
والدین کی محبت انسان کے لیے ایک بہت بڑے ادب کے سرمائے کی مانند ہوتی ہے ۔ اپنی والدہ سے اپنی وابستگی کو وہ بہت بلند رکھتے ہیں ۔ ماں کا رشتہ اس قدر عظیم اور بےمثال محبت و الفت کا حامل ہوتا ہے کہ اس کی نظیر کسی اور دنیاوی رشتے میں دکھائی نہیں دیتی ہے ۔ ماں کی اپنی اولاد سے محبت اور اولاد کی اپنی ماں سے نسبت و انسیت اس قدر زیادہ اور وافر ہوتی ہے کہ اس کو لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن نہ ہو ۔ جناب ضیاء شہزاد اس خوبصورت رشتے سے اپنی قلبی وابستگی کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ۔
اے خدا مجھ کو میری ماں دیدے
گود میں اس کی پھر اماں دیدے
دھوپ ہے سخت اس زمانے کی
اس کی چادر کا سائباں دیدے
جہاں تک والد سے محبت و عقیدت کے اظہار کی بات ہے تو ان کی اپنی زبانی سنیے ۔۔ وہ لکھتے ہیں ۔
پیارے دوستو! آدمی خود باپ بن جاتا ہے ، دادا بن جاتا ہے لیکن اسے اپنے باپ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسا خلاہے جو کبھی باپ کے جانے کے بعد پرنہیں ہوتا اور آدمی زندگی بھرایک کرب اوراحساسِ محرومی کا شکار رہتا ہے۔مجھے بھی میراباپ بہت یاد آتا ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ میرے باپ جیسا کسی اور کا باپ نہ ہوگا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین آج کی ”وارداتِ قلبی” اپنے مرحوم باپ کےحضور ناچیز کا نذرانہء عقیدت ہے جو آپ سب، میرے اہلِ سخن واہلِ نظر کرم فرمائوں اور تمام دیرینہ احبابِ گرامی کی نذر ہے ۔گر قبول افتد زہے عز و شرف “
مجھے لگتا ہے یہ اکثر میں انگلی پکڑے چلتا ہوں
میں جب بھی گرنے لگتا ہوں کوئی مجھ کو پکڑتا ہے
مجھے محسوس ہوتی ہے کوئی “مانوس سی خوشبو”
وہ میرا باپ ہے جو مجھ کو بانہوں میں جکڑتا ہے
موضوعات کی فراوانی ہی نہیں ان کے ہاں قوافی و ردیف کو خوبصورتی سے نبھانے کا فن بھی اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ اپنے کلام میں جس خوبصورتی سے وہ موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں اس پر ان کو خصوصی ملک حاصل ہے۔ فرض کی ادائیگی ، گلستان کی رونق ، شہر کا اجاڑ پن اور ہجر و وفا جیسے دلکش موضوعات کو ایک قطعے میں جس خوبصورتی سے انہوں نے سمویا ہے اس کے لیے تو شاید الفاظ بھی داد و تحسین کے لیے احساسات کا مکمل احاطہ نہ کر سکیں ۔۔ وہ لکھتے ہیں ؛
یہ فرض ادا اپنا بھلا کون کرے گا
ہموار گلستاں کی فضا کون کرے گا
پرسان نہیں کوئی بھی اس شہر الم کا
ہم ہجر کے ماروں سے وفا کون کرے گا
جس طرح حسن و دلکشی اور بالخصوص خوبصورت آنکھوں کا بیان کرتے ہوئے وہ جس فراوانی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نگاہوں کے خمار کے زیر اثر ہونے کا جس خوبصورتی سے اقرار کرتے ہیں ۔ اس کا اپنا ہی ایک جداگانہ انداز ہے ۔ کچھ یوں لکھتے ہیں ؛
جادو اثر نگاہوں نے ایسا کیا اسیر
کوشش کے باوجود نہ نکلا حصار سے
دیکھا تھا جھیل جیسی نگاہوں میں ایک بار
اب تک نشہ ہے نکلا کہاں میں خمار سے
شاعری میں ان کی نازک خیالی اور رومان پروری بھی ان کے اشعار میں بہت خوبصورت انداز میں سامنے آتی ہے ۔ محبوب کی بے وفائی اور بےرخی جیسے حساس جذبے کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ؛
جب میرے ساتھ ہی مری قسمت نہیں رہی
اس بے وفا کو مجھ سے محبت نہیں رہی
رویا ہوں اتنا آنکھ میں آنسو نہیں رہے
کہتا ہوں سچ کہ رونے کی عادت نہیں رہی
اس محبت میں بے نیازی ، بے وفائی ، بے بسی اور بےثباتی کو وہ ایک دوسرے انداز میں یوں بیان کرتے ہیں ؛
مجھ سے اک دن کسی نے یہ پوچھا
کیا محبت خراب ہوتی ہے
میں نے اس سے کہا مگر ہنس کر
ہاں سرا سر سراب ہوتی ہے
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ، معراج محمد خان اور طارق عزیز تو ایک طرف رہے ۔ مفتی نعیم ہوں ، طالب جوہری ہوں ، ادریس بختیار ہوں ،منظر ایوبی ہوں، دوست محمد فیضی ہوں، سرور جاوید ہوں ، مولانا محمد حسین آزاد ہوں ، عظیم مسلمان باکسر محمد علی ہوں ،اطہر شاہ خان جیدی ہوں ، کمال احمد رضوی ہوں ، آغا حشر کاشمیری ہوں ، ایم ایم عالم یوں انہوں نے اپنی “واردات قلبی” کے ذریعے بہت سی ممتاز شخصیات کو خصوصی طور پر منظوم خراج عقیدت پیش کیا ۔ ان کے قلم کی جولانیوں سے بہت سی شخصیات کی صفات و خصوصیات سے واقفیت ہوتی ہے
عصر حاضر کی ممتاز اردو شاعرہ محترمہ منور جہاں منور جناب ضیاء شہزاد کے حوالے سے اپنے تاثرات کچھ اس انداز میں بیان کرتی ہیں ؛
“ضیاء بھائی کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے آپ ہر اصنافِ سخن کے بادشاہ ہیں ، اسلوب پر آپکی سخت گرفت ہے، حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں، بہت حسّاس شاعر ہیں، حالات پر روز ایک نیا قطعہ حاضر ہوتا ہے ۔ آپ کی ادبی خدمات شعر و ادب میں ایک اہم درجہ ہے جو کبھی بھلایا نیں جا سکتا۔ سلامت رہیں اور اسی طرح اپنے فرائض نبھاتے رہیں۔ آمین “
ممتاز اداکار و ہدایتکار اور مصنف مرحوم کمال احمد رضوی نے جناب ضیاء شہزاد کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا تھا ؛
“میں شاعری کے رموز سے بہت زیادہ واقف نہ سہی مگر شعر اور اچھا شعر مجھے بہت زیادہ لگ کرتا ہے ۔ضیاء صاحب کی غزلوں پہ میں نے ایک سرسری نگاہ ڈالی ہوگی کہ ان کا قائل ہونا پڑا ۔مجھے امید نہیں تھی کہ وہ تواتر سے شاعری کا سلسلہ برقرار رکھیں گے اور اب جبکہ وہ دیوان مرتب کر رہے ہیں تو مجھے امید ہے کہ وہ غزل کو اپنا شعار بنائیں گے اور ایک سے زیادہ دیوان پڑھنے کو ملیں گے ۔”
جناب ضیاء شہزاد کی بہت سی صفات میں سے ایک ان کی مصوری بھی ہے۔ وہ ایک ماہر اور ہنرمند مصور کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں ۔ ایک بار جب انہوں نے کمال احمد رضوی مرحوم کا اسکیچ بنایا تو اس حوالے سے وہ خود کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
“پیارے دوستو! ایک زمانے میں پینٹنگ اور اسکیچز میرا اہم مضمون تھا مگر وقت نے اسے دھندلا دیا ، میرے مرحوم ہم زلف ؎ کمال احمد رضوی؎۔ ۔ ۔ الف نون فیم ، ، کا یہ لائن انک اسکیچ انہیں کسی سوچ می غرق دیکھ کر اسی موقع پر بنایا تھا جسے دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے اور میری تعریفوں کے پل باندھ دئے ، ، ، آج یہ اسکیچ میں اپنی سالی اور مرحوم کی بیوہ عشرت رضوی کے شکریئے کے ساتھ آپ لوگوں کی نذر کر رہا ہوں ، ، گر قبول افتد زہے عز و شرف ۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ جناب ضیاء شہزاد کی شخصیت بہت زیادہ ہمہ صفت اور بے شمار کمالات کی حامل ہے ۔ ان پر تفصیل سے لکھنے کے لیے تو شاید ایک پوری کتاب بھی کم ہوگی ۔ آخر میں ان کے شعری مجموعے “ہجر کا تماشا ” سے چند اشعار پیش کرتے ہوئے رخصت چاہوں گا:
شہر کا شہر جو شناسا ہے
سب ترے ہجر کا تما شا ہے
میں اگر محفل میں اس کی ہو گیا رسوا تو کیا؟
آپ تو خوش ہوگئے اے دوست اس تحقیر پر
سنا ہے تم بھی کوئی آدمی تھے اک زمانے میں
وہ کیا دن تھے ذرا احوال اے شہزاد ہو جائے
نکل کر صحن میں دیکھا تو اندازہ ہوا مجھ کو
مکاں کتنا تھا بو سیدہ جسے میں اپنا گھر سمجھا
ہر امتحان ِ وقت سے ملتی ہے یہ نوید
اب مشکلاتِ وقت کا عرصہ قلیل ہے
میں منتشر ہوں مگر مطمئن نہیں کچھ لوگ
ہر ایک پل انہیں ڈر ہے سنور نہ جاؤں کہیں
تحریر ایم اکرام الحق
جولائی 2020
