تحریر توقیر بھملہ
انتخاب و پیشکش افشاں سحر
سخت گرمی اور حبس کے ساتھ ساتھ گھٹن کا موسم تھا پانی پینے سے پیاس اور بڑھتی تھی، یہی اپریل کی انتہا اور مئی کی ابتداء کے دن تھے، بذریعہ بس ہم مملکتہ البحرين سے سعودی عرب چوبیس گھنٹوں سے زیادہ طویل تھکا دینے والے سفر کے بعد پہنچے ، کعبے کے سامنے اجلے بے داغ سفید احراموں اور داغدار سیاہ روح کے ساتھ مطاف حرم کے دودھیا سنگی فرش پر پستہ قامت بونے احساس ندامت کے ساتھ سر جھکائے کھڑے تھے، نگاہوں کے عین سامنے جاہ جلال کا مرکز اور محور قلبِ کائنات کعبہ مشرفه تھا. طوق ندامت سے ہمت نہ ہوتی تھی کہ نظر اٹھا کر دیکھ لیں. انسانی سروں کی ڈاریں قطار در قطار دائیں بائیں سے دھکیل رہی تھیں ، غائب دماغی تھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم ملبوس احرام حرم کے اندر طواف کے بیچوں بیچ کیوں کھڑے ہیں، جمعہ کا روز تھا اور ابھی جمعہ کی نماز میں کچھ وقت باقی تھا ہم نے سوچا کہ نماز جمعہ سے قبل اگر عمرہ کی ادائیگی ہو جائے تو کیا بات ہے ، کندھوں پر پانچ ماہ کی شیر خوار ننھی منی جان تھی اور ہمراہ شریک حیات جس نے ٹہوکا دیا کہ یونہی کھڑے رہنا ہے کیا، طواف کب شروع کرنا ہے، پھر کیسے بے اختیاری سے ہم مرکز کے گرد گھومتے ہالے میں اس گردش کا حصہ بنے پتا ہی نہیں چلا، جلال کی حدت میری برداشت سے بڑھ کر تھی، چوتھا چکر تھا کہ میری ننھی پری ایک بلند چیخ کے ساتھ کندھوں پر سے لڑھکتی ہوئی بازوں میں گر کر جیسے ساکت ہوگئی، بند آنکھوں کے ساتھ بے حرکت چند پاؤنڈ کا جسم میرے ہاتھوں میں جھول رہا تھا، میں طواف کو چیرتا ہوا حطیم کے دروازے پر پہنچا اس بے جان جھولتے ہوئے جسم کو حطیم کے دروازے پر لٹایا اور خود تھوڑا دور ہوکر بیٹھ کر خالی نگاہوں کے ساتھ اسے تکنے لگا، کوئی حرکت نہیں کوئی آواز نہیں اور میں یوں گردوپیش سے بےخبر تھا کہ کچھ خبر نہ رہی کہاں ہوں اور کیوں ہوں، وسوسوں اور اندیشوں کے ساتھ دل کے نہاں خانوں میں سے کہیں کوئی سرگوشی سی ابھری اے مولا تیری امانت اور تیرے مہمان ہیں تو جس حال میں مہمان نوازی کرے خوش ہیں اس سے زیادہ نہ سوجھا اور نہ مانگ سکا، لیکن کہیں دبی دبی سی ایک حسرت بھی تھی کہ باقی کے تین چکر بھی اگر یہ کندھوں پر ساتھ رہتی تو اس کا طواف بھی مکمل ہوجاتا، دیکھتا ہوں کہ اچانک سفید لبادوں میں ملبوس سر پر سبز پوش چالیس سے پچاس مرد و خواتین کا ٹولہ تھا جو میری ننھی منی جان کے گرد سفید دائرے کی شکل میں بیٹھ رہا ہے، طواف کرتے ہوئے لوگ اس دائرے سے دور ہٹتے گئے، وہ تمام لوگ عربی زبان میں گفتگو کررہے تھے، ان میں سے ایک عورت نے پوچھا کہ یہ کون ہے کس کی بچی ہے تو میں نے کہا یہ میری بچی ہے، وہ ہنس کر کہنے لگی اس کا گلابی دودھ جیسا رنگ دیکھو اور اپنا رنگ دیکھو یہ تمھاری نہیں ہماری فلسطینی بچوں جیسی ہے، اس دائرے میں شامل لوگوں نے اس شیر خوار پر ٹھنڈا زم زم بہانا شروع کردیا، کوئی اس کے منہ میں چند قطرے ڈالتا کوئی سر پر، ایک خاتون نے کوئی کریم نکالی بچی کے جسم ہر لگائی اور بقیہ مجھے تھمائی، کسی نے جوس کے چند قطرے اس کے منہ میں ٹپکائے اور پھر سب نے اسے یوں اوپر اٹھا لیا جیسے یہ ان کی کوئی امانت ہو، میں گم صم حیران انہیں دیکھے جارہا تھا، سب بلند آواز میں قرآنی آیات پڑھ کر اس پر پھونکتے جارہے تھے کہ اچانک اس نے آنکھیں کھولی ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اپنے مہربانوں کو دیکھا اور یکدم کھلکھلانے لگی، یوں لگا جیسے ننھی جان کو نہیں مجھے دوبارہ حیات بخشی گئی ہے، بے اختیار اس جانب لپکاانہوں نے بچی مجھے تھمائی اور وہ سب یہ جا وہ جا کہ میں شکریہ تک نہ کہہ سکا، طواف پورا کیا عمرہ ادا کیا اور پھر عصر تک عزیزوں ملنے والوں سے ملاقاتیں ہوئیں. بچی کو بخار بہت تیز ہوگیا تھا اور وہ تپ رہی تھی، ایک دیرینہ دوست نے دوا لاکر دی اور یوں شام تک وہ چنگی بھلی ہوگئی۔
ہم نے اس کے بعد مغرب، عشا اور تہجد وہیں کعبے کے سایے میں ادا کی. ربِ ذوالجلال کا جلال، گرمی کی انتہا اور انسانی سمندر جیسے کھوئے سے کھویا چھل رہا ہو، فجر کی اذان ہوگئی لیکن پسینے کی دھاریوں نے پھوٹنا بند نہ کیا،، خیر اذان کے بعد صفیں ترتیب پانے لگیں، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جماعت کھڑی ہوگئی، میں ملتزم اور مقام ابراہیم علیہ السلام کے وسط میں بیٹھا ہوا تھا جب اٹھا تو عین امام کعبہ کے پیچھے دوسری صف میں کھڑا تھا، امام صاحب نے پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ رحمٰن کی تلاوت کی، دوسری رکعت میں جب اس آیت كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان پر پہنچے تو رونے لگے اور زار و قطار ہچکیوں میں اس آیت کو دہراتے گئے اور جہاں جہاں ان کی آواز پہنچ رہی تھی لوگ سسکیاں اور آہیں بھر رہے تھے ، اس وقت کعبہ کے سکوت میں دو آوازیں تھیں، ایک نمازیوں کی گریہ زاری اور دوسری ابابیلوں کی چیخ پکار، جیسے ہی امام صاحب نے رکوع کے لیے اللہُ اکبر کی صدا بلند کی تو اچانک اتنے زور سے آسمانی بجلی کڑکی کہ ارد گرد کی ہر شے روشن ہوگئی اور دل دہل کر رہ گئے، پھر وقفے وقفے سے بجلی کڑکنے لگی، بمشکل سلام پھیرا ہوگا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور اتنے زور کی بارش تھی کہ کھلے آسمان تلے ٹھہرنا مشکل ہوگیا،عموماً ان دونوں وہاں بارش نہیں ہوتی لیکن کب ہوجائے اس کا بھی پتا نہیں چلتا تھا، کہاں جسم جلاتی گرمی اور کہاں پل بھر میں جسم سردی سے کپکپانے لگا، رکن شامی کی سیدھ میں میں وہاں گیا جدھر خواتین نماز ادا کررہی تھیں، وہاں گیا تو دیکھا میرا ننھا سا جگر گوشہ بارش میں لیٹا یوں مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو دیکھا میرے رب نے میری کیسی مہمان نوازی کی۔
یہ میرے 2017 میں کیے گیے عمرہ کے دوران ایک سچا واقعہ ہے۔
