فورٹ ولیم کالج

          
فورٹ ولیم کالج

فورٹ ولیم کالج کی ادبی تحریک اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی  ہے اگرچہ انگریزوں نے اس کالج کی بنیاد اپنے اہم مقاصد کے حصول کی خاطر رکھی تھی لیکن اردو نثر میں یہاں جو کام ہوا وہ آئندہ آنے والے نثر نگاروں میں رجحان کا باعث  بنا سب سے پہلے ہم تحریک اور رجحان کا فرق واضح کریں گے۔
تحریک کسی جمود کو توڑنے کے لئے چلائی جاتی ہے اور اس کے لئے محرک کا ہونا ضروری ہے اگر چہ فورٹ ولیم کالج قائم کرتے وقت انگریزوں کے پیش نظر نہ تو تحریک تھی اور نہ ہی وہ اردو کی ترقی و ترویج چاہتے  تھے وہ  پورے ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے منصوبہ بندی کر لی تھی جس میں زبان کا مسئلہ بھی تھا حاکم و محکوم کے درمیان رابطہ کی زبان کا ہونا ضروری تھا اس لیے انھوں نے اردو زبان کو چنا جو پورے ہندوستان کے طول و عرض میں بولی اور سمجھی جاتی تھی لیکن اس زبان کی بدقسمتی یہ تھی کہ پڑھنے کے لئے مواد بہت کم تھا اور جو تھا بھی وہ چند اہل علم کے علاوہ کوئی نہ سمجھتا  تھا اس کے علاوہ اردو نثر مقفعی و مسجع تھی جس میں سرکاری اور کاروباری امور سر انجام دینے کی صلاحیت نہ تھی اس لیے ایک ایسی زبان کی ضرورت  تھی جو کاروباری اور سیاسی امور کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتی ہو یہ تجربہ انگریز اپنی زبان میں بھی کر چکے تھے جب انہوں نے انگریزی زبان کو دفتری زبان اور کاروباری زبان بنانے کے  لئے اس کی چھانٹی کی تو انگریزی میں حیرت انگیز طور پر سادہ اور آسان ابلاغ پیدا  ہوا چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی  کی کورٹ آف ڈائریکٹرز نے انگریز افسروں کے لیے یہ ضروری قرار دیا کہ وہ ہندوستان کی زبان اور تہذیب سے آگاہی حاصل  کریں لارڈ ورلزلی نے کلکتہ میں سترہ سو ننانوے میں ایک اسکول قائم کیا یا جو اٹھارہ سو کے لگ بھگ  فورٹ ولیم کالج کے  نام سے موسوم ہوا  ڈاکٹر جان گلکرسٹ اس کالج کے منتظم  تھے لارڈ ولزلی  نے اس کالج کے مقاصد یوں بیان کیے:

“ہندوستانی بول چال کی جان  کاری میں( نو وارد انگریز افسر) جو مہارت حاصل کریں گے اس کی بدولت کمپنی کی ملازمت کے دوران  اپنے منصب کے تمام فرائض بھی وہ حسن خوبی سے سر انجام دے سکیں گے۔”
ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے اردو کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور زبان و بیان کو آسان بنانے کی غرض سے ملک کے طول و عرض سے انشاءپردازوں کو کلکتہ میں جمع کیا اور ان سے کتابیں لکھوائیں بھائی اس طرح یہ ثابت ہوا کہ اردو نثر نگاری کو آسان بنانے کی تحریک کے محرک انگریز تھے بعد میں یہ تحریک رجحان بن گئی مراد یہ کہ ملک کے طول و عرض میں اس تحریک سے متاثر ہونے والوں نے آسان اردو کا تتبع  کیا اور انہوں نے اس عام رجحان کی پیروی کی۔

      

  اردو نثر تحریک سے پہلے:

               اردو نثر کی ابتدا دکن سے ہوئی ابتدا میں چھوٹے چھوٹے مذہبی اور تبلیغی رسالے تحریر کیے گئے  یہ عموما ترجمہ تھے جو فارسی اور عربی زبانوں سے کیے  گئے ان کے بعد دکن کے نثری ادب میں قصے کہانیاں نظر آتی  ہیں سب رس ان کی نمائندہ ہے اس میں جابجا فارسی اور عربی کی بوجھل تراکیب ہیں عبارت مقفع و مسجع ہے فضلی کی کربل کتھا اور اور سودا کا دیباچہ بھی اردو نثر کے نمونوں میں شمار کیا جاتا ہے شمالی ہند کی ایک اور نثری کاوشں نو طرز مرصع  ہے جو فارسی قصہ چہار درویش کا ترجمہ  ہے اسے میر عطا حسین نے  اردو کا جامہ پہنایا تھالیکن انہوں نے نہایت مفلق اور قوافی سے بھرپور زبان لکھی معنی سے زیادہ عبارت کی رنگینی فارسی و عربی تراکیب  سے مملو تھی الفاظ و تراکیب کا بوجھل پن ، تشبیہات  و استعارات تکلف و تصنع سے بھرپور اسلوب نے اس کتاب کو فرہنگوں کا محتاج بنا دیا۔


  فورٹ ولیم کالج کی نثری خدمات:


                 جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ  تھا کہ انگریز افسروں کو ہندوستان کی زبان رابطہ سکھائی جائے اور ہندوستان کے رسم و رواج سے واقفیت کرائی جائے  اس لیے ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے کلکتہ میں بہت سے ادیبوں کو جمع کیا  انہیں طبع زاد کتابوں کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی ان کے پاس وقت تھا اس لئے فارسی کتابوں کے تراجم پر اکتفا کیا گیا  فورٹ ولیم کالج کے پروردہ مصنفوں میں سے میر امن دہلوی کو ایک نہایت اہم ترین مقام حاصل ہے جس نے تحسین کی نوطرزمرصع کو دلی کی ٹھیٹ زبان میں منتقل کیا  باغ و بہار میں زبان کی سادگی روزمرہ اور محاورہ کی چاشنی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی روانی و سلاست جذبات نگاری موجود ہے اس کے علاوہ اس میں فن قصہ گوئی  سے آگاہی چھلکتی ہے میر امن کی اردو نثر آج بھی زندہ ہے اور زندہ زبان کا بہترین نمونہ ہے میرامن کے علاوہ میر شیر علی افسوس  بھی فورٹ ولیم کالج سے منسلک تھے ان کی مشہور کتابیں باغ اردو  اور آرائش محفل جیسے ترا جم میر بہادر علی حسینی  چیف منشی تھے انہوں نے چار کتابیں لکھی  تھی ںنثر بے،نظیر اخلاق ہندی تاریخ آسام  اور ہندوستانی زبان کے قواعد کی تلخیص  وغیرہ میر بہادر علی حسینی کی زبان نہایت آسان سادہ اور سلیس  ہے البتہ ان کے جملے طویل ہوتے ہیں اور روز مرہ اور محاورہ سے معری ہیں سید حیدر بخش حیدری کا تعلق بھی فورٹ ولیم کالج سے تھا انہوں نے طوطاکہانی قصہ لیلی مجنوں آرائش محفلِ تاریخ نادری گلزار مغفرت اور گل مغفرت جیسی بلند پایا کتابیں لکھیں کاظم علی جوان نے کالی داس  کے سنسکرت ناٹک کو اردو میں اسی عنوان یعنی شکنتلا میں ڈھالا اس کے علاوہ سنگھاسن بتیسی تاریخ فرشتہ کا ترجمہ  بارہ ماسہ  جس میں ہندوستان کی مختلف فصلوں اور موسموں کی تفصیل ہے اس کے علاوہ ہندو مسلم تہواروں اور رسومات کا تذکرہ  دلچسپ  پیرائےمیں کیا گیا ہے ان کے علاوہ وہ نہال چند لاہوری قاری مظہر علی ولا ،للولال کوی  مولوی حفیظ الدین  مولوی اکرام علی وغیرہ بھی فورٹ ولیم کالج کی تحریک سے وابستہ تھے۔
               فورٹ ولیم کالج کی سیاسی وجوہات سے قطع نظر ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کی مساعی کی وجہ سے اردو نثر میں سادگی سلاست اور روانی پیدا ہوگئی اس تحریک کی وجہ سے اردو زبان میں  اتنی وسعت پیدا ہوگئی کر اپنی ہم عصر زبانوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال  کر بات کر سکے کے اب اردو زبان میں اتنی ہمہ گیری پیدا ہو چکی ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی، علمی ، فنی، تکنیکی،  سائنسی، معاشی علوم، علوم و فنون  کی اصطلاحات کا ترجمہ کر سکتی ہے اور معنی  بیان کر سکتی ہے لیکن فورٹ ولیم کالج نقطہ آغاز تھا اور اس تحریک کو اردو ادب کے عناصر خمسہ نے بھرپور انداز میں چلایا۔

افشاں سحر

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

3 تبصرے “فورٹ ولیم کالج

اپنا تبصرہ بھیجیں