قسط نمبر 5 داستان گمنام مجاہدوں کی
تحریر:توقیر بھملہ
انتخاب و پیشکش:افشاں سحر
جنوں کا میدان اور تاریک موت کا بسیرا
ہوڑا جِنوں والے میدان کو پیچھے چھوڑتا ہوا منزل کی جانب لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا تھا، طلاطم خیز موجیں کسی اژدھے کی مانند ہوڑے کے ایک طرف سے بلند ہوتیں تو ہوڑا بھی انہی کے دوش ہچکولے کھاتے ہوا ہَنڈولا بن جاتا تھا. شاہین اس ماحول میں نئے تھے، جو اس وقت شوق اور خوف کی ملی جلی کیفیت سے دوچار تھے، فضائیہ کا انچارج چیف ٹیک سلیم تھا، جس کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی اور نئی نویلی دلہن کے وچھوڑے نے اس کے دل و دماغ میں بھی ایک طلاطم بپا کیا ہوا تھا، سفر کے شروع میں سلیم تھوڑا سا افسردہ تھا، لیکن بعد میں سب سے زیادہ وہی چہک رہا تھا، فضائیہ کی جانب سے تیراکی میں گولڈ میڈلسٹ چاروں شاہینوں میں سے اکیلا سلیم پُراعتماد اور پرسکون تھا، وہی اپنے ساتھیوں کی امید اور حوصلہ بنا ہوا تھا، منزل بس چند کوس کی دوری پر تھی.
مگر عین اسی لمحے آسمانوں سے پانیوں کے نام کوئی اور حکم نامے اتارے گئے تھے.
یکدم پانی کی ایک بڑی لہر نمودار ہوئی جس کا بھنور بنا اور عفريت کی طرح ہوڑے کے ارد گرد گھومنے لگا ، سیاہ شب ظلمت میں اس سے پہلے کہ کوئی صورتحال کو سمجھ سکتا، اس موت کے گرداب نے کسی کو سوچنے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر ہوڑے کو پورے کا پورا نگل لیا، چند ثانیوں میں پانی کے اوپر کے مسافر تہہ آب جاپہنچے، ہوڑا پانی کی سب سے نچلی سطح پر جاکر پھنس گیا، کسی کا سر تو کسی کے بازو اور کسی کا پورا دھڑ سامان کی زد میں تھا، ہر لحظہ حیات منہ سے بلبلوں کی صورت ساتھ چھوڑ رہی تھی، تہہ آب نہ وہ کسی کو مدد کیلئے پکار سکتے تھے اور نہ کوئی سہارا میسر تھا، زخم تھے جو جسم پر لگ رہے تھے، جان تھی جو اس جسم سے روٹھ رہی تھی، لہو کو منجمد کرتے یخ پانی کی تہہ میں زمین کی سطح سے کئی گنا زیادہ تاریکی تھی، مسافر اور سامان ہوڑے سے آزاد ہوکر بے وزن تنکوں کی مانند پانی میں گردش کرنے لگے، بھنور میں کبھی وہ باہم گتھم گتھا ہوجاتے اور کبھی زبردستی سے الگ کردیئے جاتے تھے، بے رحم موت کا یہ چند سیکنڈوں کا کھیل تھا جو انسانی جانوں کو یکلخت بے وزن کرگیا تھا، پھیپھڑوں کی پوری قوت لگا کر سطح آب پر نکلنے والا پہلا شخص رانا یونس تھا، باہر نکلتے ہی اس نے سانس اور حواس بحال کیے اور پہلی سوچ باقی ساتھیوں کو بچانے کی آئی، دوسرا ملک شمس اور تیسرا ملک ثقلین تھے، جو کسی نہ کسی طرح گرداب کی گردش سے خود کو کھینچ کر اوپر لے آئے تھے، یہ تینوں بحریہ کے جوان تھے ان تینوں نے اس اندھی کریک کے تاریک پانیوں میں قوت اردای کے بل بوتے پر، بجائے کناروں کی طرف جاکر جان بچانے کے، اردگرد اندازوں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ڈوبتے ابھرتے جسموں کو بچانا شروع کردیا، یہ چیخ چیخ کر انکو متوجہ کرتے، کوئی اشارہ یا آواز پا کر اسی جانب لپکتے، نیم بے ہوش افراد کو پانی کے اندر ہی اٹھاتے، اور کناروں کی طرف منتقل کرتے جاتے، جنوں والے میدان میں یہ تینوں انسانی تاریخ کے زندہ جن بن چکے تھے، جنہوں نے ٹھان اور جان لیا تھا کہ یہ پانی اب مزید ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جو موت اس نے چکھانی تھی، دکھانی تھی وہ دکھا چکا، اب اسے ہم ربی امداد پر مرد مجاہد کا زور بازو دکھائیں گے.
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن، میں جب بھی ان کے حالات کو سوچتا ہوں تو میں بے اختیار کہتا ہوں یہی اصل گمنام مجاہد ہیں جو بغیر کسی دنیاوی لالچ کے جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں، ان تینوں نے کسی نہ کسی طرح نیم مردہ جسموں کو کھینچ کر کنارے پر اکٹھا کرلیا، اس صورتحال میں رانا یونس نے خود کو قائد بنا کر اسی کے مطابق سوچنا اور فیصلہ کرنا شروع کردیا، اس نے ان بے ترتیب آڑے ترچھے جسموں کو گننا شروع کردیا، دو افراد کم تھے اور دونوں فضائیہ کے جوان تھے، اوت ان میں سے ایک تو ان کا انچارج چیف ٹیک سلیم تھا ، یونس نے ملک ثقلین کو ان باقی بچ جانے والوں کا انچارج مقرر کیا، اور کہا کہ ان کو کسی بھی صورت میں اس جگہ سے ہلنے نہ دینا، ملک ثقلین اب ان کا نگران تھا، یونس نے شمس کو ساتھ لیا اور پانی میں پھر سے اتر گیا، یہ دونوں پانی میں آوازیں دیتے بچتے بچاتے باقی رہ جانے والے دو افراد کو ڈھونڈتے رہے، اچانک یونس کے ساتھ کوئی شے پانی میں ٹکرائی یونس نے محسوس کرلیا کہ یہ کوئی انسانی جسم کی ٹکر تھی، ایک ہیولا سا تھا جو ٹکرانے کے بعد تیزی سے اس سے دور ہوتا جارہا تھا، یونس نے پوری قوت لگا کر اس ہیولے کو پکڑا، جو جسم و جان سے بے خبر یخ بستہ پانی کے سپرد تھا، یونس نے اس کو پکڑ کر پانی کے اندر ہی جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ اچانک اس مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے غیر ارادی طور پر چلاتے ہوئے اپنے بازو یونس کی گردن کے گرد سختی سے باندھ لیے کہ شاید اسطرح میں اس سہارے بچ جاؤں گا، یونس پانی کے اندر اپنا جسم چھڑوانے کیلئے جدوجہد کرنے لگا، مگر گردن کے گرد بازوؤں کا گھیرا تنگ سے تنگ ہوتا گیا سانسیں اکھڑنے لگی بچانے والا ہیرو شاید اب اس کہانی میں مرنے والا ہے، لیکن نہیں ابھی نہیں ابھی قدرت نے کئی امتحانوں کیلئے اس کو بچانا تھا، یونس نے کسی طرح اس گرفت سے خود کو چھڑوا لیا، وہ جسم دوبارہ سے بے حس و حرکت ہو گیا تھا، یونس کیلئے فیصلہ کن لمحہ ہے کہ وہ خود کو بچا کر کنارے لگائے یا دوسرے جسم کو بھی گھسیٹے، خود کو بچانے اور چھڑانے کے دوران اسکی طاقت مکمل خرچ ہوچکی تھی، فقط ایک حوصلہ تھا اور وہ کب تک ساتھ دیتا، اچانک ایک اور فرشتہ شمس کی صورت آن پہنچا، اس نے یونس کی مدد کی اور وہ دونوں ایک تیسرے جسم کو گھسیٹ کر کنارے پر لگانے میں کامیاب ہوگئے، ساری توانائی نچڑ گئی تھی، لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی موت کے خوف اور بقائے حیات کے درمیان مقابلہ ایک فیصلہ کن جنگ تھی ، ان تینوں نے مل کر باقیوں کے جسم سے پانی نکالا ان کو جھنجھوڑ کر زندگی کی طرف پلٹنے کیلئے جدوجہد کرنے لگے، پانی سے باہر سانپوں کا خطرہ بھی تھا، جو نیم مردہ جسموں سے رستے لہو کی بو پاکر بیدار ہورہے تھے ، کسی نہ کسی طرح ان مردہ جسموں میں حرارت لوٹنا شروع ہوئی اور ایک بار پھر سے امید کا دیا جلنے بجھنے لگا، یونس کا دماغ انسانی تاریخ کے عجیب و غریب تانے بانے بننے میں مصروف تھا، اس نے ایک آخری بار پانی میں اتر کر سلیم صاحب کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا اس بار اس کے ہاتھ کچھ تیرتا ہوا سامان بھی لگنا شروع ہوگیا، اور اس نے ٹھیک ٹھاک سامان بھی نکال لیا، لیکن سلیم صاحب کسی بھی حالت میں نہ مل سکے، یہ وہی منفی درجہ حرارت والا حیات کو موت میں بدلتا ظالم پانی ہے جس نے صرف نصف گھنٹہ قبل اچانک پوری طاقت سے ان کو زندہ نگلا تھا، مزید کوئی نصف گھنٹے تک یونس اور شمس نے جہاں تک ہوسکتا تھا تلاش کیا. یونس کے دماغ نے تانے بانے بن کر ایک پلان بنا لیا تھا اور یونس اب پوری طرح اس پلان پر عمل پیرا ہونے جارہا تھا، وہ جانتا تھا یہاں پر بے یارو مددگار پڑے رہنے سے آہستہ آہستہ مرنے سے بہتر تھا مزید لڑا جائے اور ہوسکے تو اس موت کو شکست دی جائے، اس نے اس چال کو بس ثقلین اور شمس پر ظاہر کیا باقی ویسے بھی بے ہوش تھے ثقلین کو ان کا محافظ مقرر رکھا، اس نے سوچ لیا تھا کہ ایک انسانی جان لاپتہ ہے اور باقی بچ جانے والے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں یہاں رک کر ہاتھ پر ہاتھ دھرنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا اور یہ خود کو ایسا کرنے پر فرض سے کوتاہی برتنے کے مترادف سمجھ رہا تھا. شمس کو ساتھ لیکر اس نے اگلی چوکی کی طرف کسی طرح جانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور شمس آمین کہہ کر ساتھ ہولیا، ثقلین اب ان جسموں کو حرارت پہنچانے اور زندہ رکھنے پر مامور تھا، ساتھ ساتھ وہ پانی سے سامان بھی اکٹھا کرتا رہا، وہ ان سب کو کسی نہ کسی طرح ہوش میں لاکر زندگی کی طرف بھی واپس لا رہا تھا، وہ ایک گھنٹہ قبل ٹوٹنے والی قیامت کی تلخی کو کم کررہا تھا، ان کے حوصلوں کو جمع کررہا تھا اور سوچ رہا تھا اگر خدانخواستہ وہ دونوں منزل پر نہ پہنچ سکے تو میں نے پھر کیا کرنا ہے، ویسے ان سب کا موت کا خوف ہوڑے کے ساتھ ہی غرقاب ہوچکا تھا.. یونس اور شمس اب اسی بے رحم پانی کے حوالے تھے حادثے والی جگہ سے اگلی چوکی تقریباً 8 ناٹیکل میل دور تھی یعنی 14 یا 15 کلو میٹر سمندری کریک کا سفر اب ان دونوں نے طے کرنا تھا جن کے جسموں کا ایندھن پہلے سے جل کر ختم ہوچکا تھا، توانائی نچڑ چکی تھی، موت کا نمکین ذائقہ چکھ چکے تھے، دونوں بے سمت تیرنے لگے، ان کو سمت کا کوئی اندازہ نہیں تھا، لیکن ان کا دماغ جو ہزار گنا زیادہ طاقت سے کام کررہا تھا وہ ان کو ایک خاص سمت میں آگے بڑھتے رہنے پر اکساتا رہا، ان کا ذہن اب ان کا سمت نما تھا، وہ کبھی پانی میں تیرتے اور کبھی کنارے کنارے سانپوں سے بھرے دلدلی مینگرووز میں چلتے ان کے جسم اندھا دھند آگے بڑھنے سے ظاہری طور بھی زخمی ہو گئے تھے، یہ دونوں اب ایک دوسرے کی طاقت تھے اور دونوں تقریباً ایک دوسرے کو گھسیٹ رہے تھے، بار بار انہیں یہی خیال آتا کہ ہم اور ہماری محنت بس ابھی رائیگاں ہوجائے گی، اور ہم ان تاریک راہوں میں گمنام چپ چاپ پانی کا رزق ہوجائیں گے ، ان کا دماغ ان کے جسم کو استطاعت سے زیادہ توانائی اور حوصلہ بخش رہا تھا ان کو محسوس ہوا کہ جیسے رات کے پہلو سے اب صبح کاذب جدا ہورہی ہے شاید رکتے چلتے انہوں نے 7 سے 8 گھنٹے کا سفر طے کر لیا تھا، منزل شاید ایک آدھ میل کی دوری پر تھی، اور ان کے جسم ان کا مزید بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوتے جارہے تھے، ترتیب یافتہ جسم نے پانی کے اندر ایک عجیب پیغام محسوس کیا، یہ ان دیکھی طاقت کا ایسا پیغام تھا کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، دونوں نے محسوس کر لیا کہ پانی کے اندر ایک عجیب طرح کا ارتعاش ہے، جو پانی کے اندر کی کسی چیز کا نہیں، بلکہ یہ کوئی بیرونی طاقت ہے ، آواز کی بازگشت ہے یا پھر کوئی عجیب سی گونج ہے جو ہوا سے ہوتی ہوئی پانی کے دوش پر بکھر کر شش جہت سے گونجتی اور گھومتی ہوئی ان کے پاس آتی چھوتی اور دور ہوجاتی، یہ آواز سے سمت کا اندازہ لگانے سے قاصر تھے، لیکن اس آواز نے ان کے جسموں میں ایک نئی جان ڈال دی ان کو یقین ہوگیا کہ اگر مزید کچھ وقت اور نکال گئے تو رائیگاں نہیں ہوں گے، اور یوں آہستہ آہستہ بتدریج یہ آواز کی گونج کے محور کے قریب ہوتے گئے، دگنے حوصلے اور ولولے نے ان کی رفتار کو تیز کردیا، رینگنے والے اب پھر سے تیرنے لگے کہ اچانک آواز بند ہوگئی اور ارتعاش ساکت ہوگیا لیکن یہ ان کیلئے اب کوئی معنی نہیں رکھتا تھا یہ سمجھ چکے تھے کہ آواز کیا ہے اور منزل کہاں ہے, یہ انکی منزل پر ایک ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر کی آواز تھی جو بیٹریوں کو چارج کرنے کیلئے تھا.
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
توقیر بُھملہ
