قسط نمبر 7 آخری حصہ
داستان گمنام مجاہدوں کی
تحریر:توقیر بھملہ
انتخاب و پیشکش:افشاں سحر
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
آٹھویں دن کا سورج بھی باقی دنوں سے مختلف نہ تھا، دن رات تلاش کرنے والے اپنے تھکن سے چور بدنوں کو ہمت سے تھامے ہوئے تھے، آج کا دن بھی کہیں سے کوئی امید کی خبر نہ ڈھونڈ سکا، تلاش کے خاتمے کا وقت قریب آرہا تھا امیدیں دم توڑ رہی تھی، سب خاموش دعاؤں کے ساتھ لہروں کو کھنگال رہے تھے، بالآخر مقررہ وقت آن پہنچا رات دن کی ان تھک تلاش بے سود رہی بچھڑنے والے کو نہ ملنا تھا نہ ملا، جنگل کو اداس کرکے وہ مسافر نجانے کن سفروں کو نکل گیا تھا، دن گیارہ بجے نم آنکھوں کے ساتھ حوصلوں کو توڑتا ہوا پیغام سنا، تلاش کو باقاعدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا، سلیم صاحب کو شہید قرار دے کر ان کے لواحقین کو اطلاع دے دی گئی اور غائبانہ نماز جنازہ کا وقت مقرر کردیا گیا. تمام ٹیمیں دکھی اور بوجھل دلوں کے ساتھ اپنے اپنے مقامات کی طرف واپس ہوگئیں، وہ حادثہ اب پانیوں سے نکل کر ہمارے اعصابوں کے دوش تھا، جنہیں موت کو شکست دینے کی عادت تھی، وہ سب بے یقینی کی کیفیت میں تھے، ہم سب اپنے طور پر ان جزیروں کو مزید کھوجنا چاہتے تھے، اس لیے وہاں دوستوں نے مجھے چند دن مزید رکنے کو کہا، شاید میرا رکنا بھی کہیں پہلے سے طے شدہ حکم تھا.
اسی دن یعنی آٹھویں دن سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کے باضابطہ خاتمے کے بعد، ذرا سا نہا دھو کر فریش ہوئے، جیٹی پر بیٹھ کر دن کا کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے، او پی نے خبر دی کہ ایک پرائیویٹ کشتی بادبان کھولے سفید پھریرا لہراتے ہوئے چوکی کی جانب تیزی سے آرہی ہے، امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہوکر کشتی کا انتظار کرنے لگے ، جلد ہی وہ کشتی قریب پہنچی جو سندھی مچھیروں کی تھی، ایک شخص پانی میں اتر کر نزدیک آیا اور تقریباً چلاتے ہوئے کہنے لگا، سائیں فلاں جگہ پر ایک شخص کا جسم پانی پر الٹا پڑا تیر رہا ہے، یہ وہی جگہ تھی جہاں حادثہ پیش آیا تھا، ہم جو چند افراد جیٹی پر کھانا کھا رہے تھے، فوراً اپنی کشتیاں لیکر ایک بار پھر اس سمت نکل پڑے جہاں سے کچھ دیر قبل ہی لوٹے تھے، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک جسم پانی پر ساکت الٹا پڑا تھا، سرکش لہروں کی جگہ پرسکون لہریں اسے محبت سے تھام کر کنارے کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہیں تھیں ، سر کنارے کی طرف اور پاؤں سمندر کی جانب تھے، ہم چار بندے وہاں پانی میں اترے، ہمارے پاس ایک پلاسٹک شیٹ پہلے سے کشتیوں میں تھی، چاروں نے اس شیٹ کا ایک ایک کونہ پکڑ کر وہ شیٹ پانی کے اندر سے ہی اس جسم کے نیچے سے گزاری، کونوں سے اس شیٹ کو اوپر اٹھا کر اس جسم کو باہر خشکی پر رکھا، تقریباً اندازوں سے پتا لگ گیا تھا کہ یہ شہید سلیم ہی ہے، ہم نے دیکھا تو نہیں ہوا تھا، انہوں نے فضائیہ کا سردیوں والا لباس پہنا ہوا تھا، پاؤں میں جوتے جن کے تسمے تک بند تھے شرٹ کے اوپر جرسی اور اس کے اوپر بندھا ہوا بیلٹ، بازوؤں کے کفوں کے بٹن تک بند، پتلون کی پچھلی جیب میں ایک بٹوہ تھا جو نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں شناختی کارڈ وغیرہ تھے جس سے تصدیق ہو گئی کہ یہ جسد خاکی شہید سلیم کا ہی ہے، جسم کو سیدھا کیا گیا، کہیں پر بھی کوئی زخم یا خراش تک کا نشان نہیں تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی وردی پہن کر سو گیا ہو، اور ابھی جاگ کر کہے گا، خیر تو ہے نا سب میرے اردگرد کیوں کھڑے ہو، میں نے محسوس کیا دائیں کان سے لیکر گلے تک ایک سرخ لیکر ہے، میں نے اس کو صاف کرکے دیکھنا چاہا کہ شاید کوئی زخم یا چوٹ تھی جس کی وجہ سے وہ شاید فوراً خالقِ حقیقی سے جاملے اور بچنے کی مہلت نہ ملی ہو، میں نے ہاتھ سے صاف کرکے دیکھا تو کان سے تازہ خون کی پتلی سے ایک دھار نکل رہی تھی، اللہ اکبر ایک پرسکون چہرہ تھا میں نے سوچا شاید زندگی کی رمق باقی ہو لیکن نہیں ایسا کچھ بھی باقی نہیں تھا، ایک بار پھر سے ہر جگہ سگنل ارسال کرنے کے بعد، سمندری ایمبولینس میں شہید کا جسد خاکی رکھ کر امانتاْ سمیع اللہ نیازی کے حوالے کرکے زمینی حدود کی طرف بھیجا گیا، پھر وہاں سے باکس میں رکھ کر سکھر کی جانب روانہ کردیا گیا..
جہاں یہ جسم پانی کے اوپر تیر رہا تھا، عین وہی جگہ تھی جہاں ہوڑا ڈوبا تھا اور بعد میں شہید کی بیوہ کا رقعہ پھینکا گیا تھا.
یہ سب کیسے ہوا جس ٹیم نے اوائل جنوری کو نکلنا تھا اس کا سفر بار بار قدرت کی طرف سے کیوں تاخیر کا شکار ہوتا رہا، اس رقعے میں کیسا پیغام تھا، جس جسم کو ہم تلاش نہ کرپائے اس جسم کو ایک رقعے کہ چند الفاظ شاید باہر لے آئے مگر کیسے، کائنات کے ان گنت اسراروں کی طرح میرے نزدیک آج بھی یہ بھید ہی ہے میں اس گتھی کو سلجھا نہیں سکا.
گل شیر کو بروقت طبی امداد مل گئ تھی اور وہ بچ گیا تھا، یونس اور باقی پارٹی کو چند ماہ انکوائری بھگتنا پڑی کہ شاید ان کی غفلت حادثے کا سبب بنی ہو، پرائیویٹ اور سرکاری ماہرین نے کئی روز تک ہوڑے کو اچھی طرح جانچا پرکھا نتیجتاً آخر میں کہا کہ اس میں کوئی سوراخ کوئی فنی خرابی کا شائبہ تک نہیں وہ ہوڑا اس سازو سامان اور افراد سے دگنے وزن کے ساتھ کئی بار مختلف اوقات میں اس جگہ سے مختلف طریقوں سے گزارا گیا اور ہر بار سکون سے گزرتا رہا قدرت کے اپنے کھیل، پانی کی اپنی مرضیاں، سائنسی یا فلسفی تحقیق حادثے کی وجہ انسانی غفلت نہ ثابت کرسکی، جان پر کھیل کر جان بچانے والے گمنام مجاہدوں کو انکی ناقابل فراموش جدوجہد اور انسانیت کی بے لوث خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے سرکار کی جانب سے تمغہ بسالت سے نوازا گیا.
یہی لوگ کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا.
یہ واقعہ یہاں پر اختتام پذیر ہوتا ہے . اس واقعے کو لکھنے میں میری اپنی یاداشت کے علاوہ، میرے معاون ہیرو رانا یونس، مہربان دوست چوہدری عمران اور دنیا کے سب سے بہادر شخص سمیع اللہ نیازی ہیں.
خدائے بزرگ و برتر شہید کے درجات بلند فرمائے. آمین
نہ تو زمیں کے لیے ہے ،نہ آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
( میں اپنا وہاں کا دورانیہ بہت پہلے گزار چکا تھا، مگر 2007 میں دوبارہ شاید اس لیے نیلے پانیوں سے کالے پانیوں کی طرف گیا، کہ 15 سال بعد آپ کو یہ قصہ سنا سکوں)
وہ تمام دوست احباب جنہوں نے اس کاوش کو پڑھا سراہا اور انتظار کرتے رہے سب کا تہہ دل سے شکریہ.
ممنونم متشکرم
ختم شد
توقیر بُھملہ
