لکھنؤ کی تہذیبی اور لسانی وراثت سے روشن اوراق پریشاں
تحریر:ضیا ءفاروقی
انتخاب و پیشکش: افشاں سحر
فرزانہ اعجاز
ہماری بہن محترمہ فرزانہ اعجاز صاحبہ کو یو پی اردو اکادمی نے ان کی کتاب اوراق پریشان پر اعزاز سے نوازا ہے ۔ ہم صمیم قلب سے ان کو اس اعزاز کے لئے مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ پچھلے دنوں لکھنؤ میں انھوں نے اپنی چند دوسری کتابوں ساتھ یہ کتاب بھی خاکسار کو عنایت کی تھی ۔اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اوراق پریشاں کے ساتھ خود مصنفہ کا ایک اجمالی تعارف یہاں پیش کردیا جائے ۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ لکھنؤ کا خاندان فرنگی محل اپنی علمی تہذیبی اور سماجی وجاہت کے سبب ہمیشہ معاشرے میں ممتار رہا ہے اور مردوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی خواتین نے بھی علمی ادبی میدن میں اپنی ایک شناخت چھوڑی ہے ۔ فرزانہ اعجاز بھی اسی خانوادے کا ایک روشن چراغ ہیں ان کے والد معروف عالم دین ‘ صحافی ‘استاد مفتی محمد رضا فرنگی محلی اپنی گوناگوں خصوصیات کے سبب اپنے عہد کی اہم شخصیات میں شمار ہوتے تھے ۔فرزانہ اعجاز نے اپنی ابتدائی تعلیم لکھنؤ کی معروف درس گاہ “تعلیم گاہ نسواں ” سے حاصل کی اور اعلی تعلیم لکھنؤ یونیورسٹی سے مکمل کی ۔شادی کے بعد اپنے شوہر اعجاز اللہ خاں صاحب کے ساتھ غیر ممالک میں ایک طویل عرصہ تک رہیں اور اس طرح دنیا گھوم کر پھر اپنے مستقر یعنی لکھنؤ واپس آگئی ہیں ۔فرزانہ اعجاز جہاں رہیں وہاں کی اردو زبان کے ساتھ ساتھ لکھنوی تہذیب کا چراغ بھی روشن رکھا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور انشائیے بھی ۔تحقیق اور تنقید کا میدان بھی سر کیا اور مشاہیر کے انٹرویوں بھی لئے ۔اس حوالے سے ان کی اب تک کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔زیر تذکرہ کتاب ” اوراق پریشاں “بھی انھیں میں سے ایک ہے جو تقریباٗ اڑتیس ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے پیشتر کا موضوع دیار لکھنؤ اور ارباب لکھنؤ سے ہے ۔ پہلا مضمون ہی ” ہم کہ ٹہرے لکھنوی” لکھنؤ کی جغرافیائی ۔تہذیبی اور سماجی صورتحال کا آئینہ ہے ۔وہ لکھنؤ جو کبھی واقعی عالم میں انتخاب تھا اور جس کو ہماری نسل نے دھیرے دھیرے گم ہوتے اور مرتے دیکھا ہے فرزانہ اعجاز کے قلم کا اعجاز ہے کہ انھوں نے اس لکھنؤ کو اپنے مختصر مضمون میں سمیٹ لیا ہے جو آج اپنی وسعتوں کو توڑ کر اطراف و جوانب میں دور دور تک نہ صرف پھیل چکا ہے بلکہ اپنی روائتی تہذیت بھی کھوتا جا رہا ہے ۔ لکھنؤ سے اپنے تعلق کے سلسلے میں لکھتی ہیں
ہم لکھنؤ چھوڑ کردور دراز علاقوں میں گھومتے ضرور رہے لیکن جہاں جہاں بھی گئے ہمارا لکھنؤ ہمارے ساتھ گیا ۔کسی اجنبی سے بات کی تو اس نے بے ساختہ پوچھا میڈم آپ کہاں کی رہنے والی ہیں ؟ سلطنت مسقط و عمان کی سڑکیں ہوں یا شکاگو کے یا لندن کے یا کہیں اور کے بھی اردو جاننے والے اجنبی لوگ ہمیشہ ٹھٹک کرایک بار یہی جملہ ضرور دہراتے تھے ۔کپڑوں کی ایک دکان پر ایک صاحبہ نے ہم سے پوچھا آپ کہاں کی ہیں جو فالسئی اور بنفشئی اور عنابی برئی رنگ کہہ رہی ہیں ؟ یہ لہجہ یہ زبان یہ انداز گفتگو یہ الفاظ اور جملوں کی ادایگی میں یہ لوچ بلا تفریق مذہب و ملت ہر اس شخص میں نظر آتی ہے جس کی پرورش لکھنؤ میں ہوئی ہو ۔کرخت اور بھونڈے الفاظ لکھنؤ کی زبان میں نا پسندیدہ قرار پاتے ہیں
اس کتاب کے دوسرے مضامین میں بھی لکھنؤ کا پرتو جگہ جگہ نمایاں ہے مثلاٗ ایک طرحی نشست جو حیات اللہ انصاری کی قیام گاہ دارالشفا میں منعقد ہوئی تھی اور جس میں اس وقت کے تمام مقتدر شعراء شریک ہوئے تھے اس کی تفصیلی روداد اس میں موجود ہے ۔یہاں دوسرے اساتذۂ لکھنؤ کے ساتھ ساتھ میرے کالج کے استاد حضرت محضر لکھنوی کے پانچ اشعار بھی درج ہیں جو ذاتی طور پر میرے لئے تبرک ہیں ۔ یہاں کئی ایسے مضامین ہیں جن میں لکھنؤ کی تہذیبی روایات کو بہت والہانہ انداز سے پیش کیا گیا ہے خواہ وہ اردو انسٹی ٹیوٹ شکاگو ہو یا علیگیرین فرنگی محلی ہو ۔ یا پھر تعلیم گاہ نسواں میں مصنفہ کے شب وروز ہوں جو کئی مضامین میں مختلف عنوانات کے ساتھ یادوں کا بھنور بناتے ہیں جس میں خود مصنفہ ہی نہیں بلکہ ہر وہ قاری بھی رقص بداماں نظر آتا یے جو اس ماحول سےکسی حد تک پہلے سے ہی واقف ہے ۔ اس منظر نامے میں سینٹ جانس کالج جس کو عرف عام میں لال اسکول کہا جاتا ہے اس کا بھی ذکر خیر ہے اس کے علاوہ کاکے لاگو پائے کے عنوان سے دو مضامین ہیں جن کا موضوع بھی اپنا اسکول وہاں کی ٹیچرز اور وہاں کا اسٹاف ہے یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے خلوص اور اینے رکھ رکھاؤ سے تعلیم گاہوں میں اپنی شخصیت کی چھاپ چھوڑی ہے ۔ کتاب میں کچھ شخصی خاکے بھی ہیں جیسے شفاعت علی صدیقی ۔ داراب نانو وفا اور ان کے بھائی عزیز الدین خالد جو اپنے ٹی وی سیریل بندھو جی کی وجہ سے بندھو جی مشہور ہو گئے تھے ۔بیگم نسیم اقتدار علی ۔ چودھری جمال نصرت ۔ ڈاکٹر صبیحہ انور ۔ممخمور کاکوروی ۔سیدمسیح الحسن رضوی ۔والی آسی ملک زادہ منظور احمد ڈاکٹر شجاعت علی بیگم حامدہ حبیب اللہ عابد سہیل ڈاکٹر عباس رضا نیر ۔کاکوری ہاؤس کےشبو بھائی ۔ غرض کہ لکھنؤ کی وہ بہت سی شخصیات جن کو مصنفہ نے دیکھا یا ان کی تخلیقات پڑھیں سب کا یہاں تذکرہ موجود ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں لکھنؤ کی تہدیبی اور تمدنی زندگی کو سمجھنا ہے تو اس کتاب کا مطالعہ ہمارے لئے انتہائ سود مند ہوگا۔
