مذہب سماج اور اسباب

مذہب، سماج اور اسباب 

تحریر و تحقیق :توقیر بھملہ

انتخاب و پیشکش:افشاں سحر



بحیثیت مسلمان ہمیں رزق اور حلالS رزق، اس کی طلب اور کوشش، اسباب اور مقدار کو سمجھنا ہوگا. 

رزق سے مراد صرف روٹی پانی، یا کھانے پینے کی اشیا نہیں ہیں ، رزق کا ایک وسیع مفہوم ہے ، عربی کے دو لفظ رزق اور رازق پوری کائنات پر محیط الفاظ ہیں. 

رزق سے مراد عطا یا عطا کی گئی شے ہے، خیر الرازقين نے انسان کو تخلیق کرکے اس کے لیے دنیا اور پھر اس میں اسباب رکھ دیے، جن کو اختیار کرکے انسان اپنی زندگی گزارنے کی تدبیر و ترتیب کرتا ہے، یہ عطا کیے گئے اسباب ہی رزق ہیں، ہر وہ نعمت جو رازق نے عطا کی ہے، اولاد، گھر، زمین، ذریعہ معاش، علم و حکمت جسم اور جسمانی اعضاء، وغیرہ وغیرہ یہ رزق ہی ہیں.. اس لیے کائنات کے اندر عطا کردہ ہر چیز رزق کے زمرے میں آتی ہے۔ 

عربی زبان سے ہٹ کر دین اسلام کے اندر رزق سے مراد ایسا مال ہے جو حلال اور نفع دینے والا ہو ، جسے حاصل کرکے انسان اپنی ضروریات حیات کو پورا کرے، تاکہ اطمینان بخش زندگی گزارتے ہوئے احکامات الٰہی کی بجاآوری کرسکے ، دین کے منہج شریعہ پر ٹھیک ٹھیک چل سکے. اور آخرت کی زندگی جسے حیاتِ جزا یعنی بدلے کی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے اس کی تیاری کرسکے۔

اب اُس حساب کتاب اور یوم جزا کے لیے لازم ہے کہ ہر کوئی اِس دنیا میں عمل کرے، اور وہاں بدلہ اُس عمل کے مطابق حاصل کرلے ، خیر کا بدلہ خیر اور شر کا بدلہ شر، اب اگر تقدیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا نام ہوتا تو اس دوبارہ جی اٹھنے والی زندگی کو جزا اور حساب کا نام نہ دیا جاتا، یہی ایک بہت بڑی نشانی بھی ہے اور راز بھی ہے، یہی راز انسان کو عمل اور عملِ خیر پر اکساتا ہے، اسے کسب حلال، حقوق ﷲ اور حقوق العباد ادا کرنے کے لیے اسباب اختیار کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔

 وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا

اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے۔

یہاں اس آیت قرآنی میں جہد کو زیادہ ترصرف ایک مخصوص معنوں میں لیا جاتا ہے ، جہد کو سعی کرنے یا کوشش کرنے کی طرف بہت کم لیا گیا ہے، یہ جہد اور سعی انسان کے اختیار میں دیکر اسے اس کے عمل اور طلب کے مطابق رستہ دینے، اور انسان جس چیز کے متعلق سعی کرتا ہے تو اسی کی کوشش اور گمان کے مطابق جزا دینے کے متعلق قرآن مجید میں مختلف مقامات پر سمجھا دیا گیا ہے ۔

حلال کیا ہے؟

حلال حل سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کا آسان ہوکر کھل جانا، جیسے کسی گانٹھ کا کھل جانا اور اس معاملے میں آسانی ہوجانا، اسی طرح دین میں حرام ایک گانٹھ ہے اور گانٹھ سے پاک رزق، رزقِ حلال ہے

اب رزق بے شک رزاق کے قبضہ قدرت میں ہے، ہماری عقل اور کوشش سے مشروط ہے مگر عقل اور کوشش سے مقدور نہیں، اسباب ہیں، اختیار کرنے کے لیے مگر بھروسہ اور توکل خدا پر ہی ہے.. کوئی بہت تھوڑی محنت کرکے بہت زیادہ کماتا ہے، اور کوئی بہت زیادہ محنت کرکے بہت تھوڑا کماتا ہے، کسی کے بہت تھوڑے میں بہت زیادہ برکت ہوجاتی ہے اور کسی کے بہت زیادہ میں بھی ضروریات پوری نہیں ہوتی، اس میں ایک معاملہ ہے نیت اور کوشش کا، انسان اور رب کے درمیان معاملات کو کوئی دوسرا نہیں دیکھ سکتا، کسی کی نیت ہم پر آشکار نہیں ہوسکتی،، اور عطائے ربی کیا ہے اسی کوشش اور نیت پر ہے یا نہیں، بظاہر تو کوشش اور نیت ہر انسان کے اعمال کا دارومدار بتایا گیا ہے، مگر مخفی امر کیا ہے، یہ جاننا ہمارا کام نہیں ہے ، رب نے صاف صاف کہہ دیا کہ کائنات کے تمام خزانے کسی بھی انسان کے ہاتھ میں نہیں، اس لیے میں ہی بہترین رازق ہوں، اس سے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ رب العالمین اس دنیا میں جو ہم اردگرد دیکھ رہے ہیں اس کے مطابق وہ ایک غیر جانبدار رب یے، وہ محنت کرنے والے کو عطا کرتا ہے، وہ محنت، طلب، کوشش کرنے والے کا دین، دھرم، رنگ، اور وطن نہیں دیکھتا، اس نے دو قسم کے کیڑے پیدا کیے ایک وہ جو سارا دن ایک دانے کی خاطر مشقت اٹھاتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں پتھر کے اندر رزق دیتا ہے، اب مشقت اٹھانے والا کیڑا اپنا رزق لیکر پتھر والے کیڑے تک پہنچاتا ہے، اور پتھر کے اندر والا آرام سے بغیر مشقت کے رزق حاصل کرلیتا ہے، یہی اوپر والے ہاتھ اور نیچے والے ہاتھ کی مثال ہے، دینے والا ہاتھ اور لینے والا ہاتھ، جب انسانی تعداد سے زیادہ اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے وسائل قدرت نے پیدا کررکھے ہیں تو پھر یہ تو عقل کا کام ہے کہ سوچے اگر کوئی حقیقی عذر نہ ہو تو کیا بہتر ہے؟ محنت کرکے کھانا یا مانگ کر کھانا؟ . ہم بہترین رزق دینے والے رب سے اپنا بہتر رزق محنت اور اسباب کی بجائے صرف دعا اور خواہش سے یا دوسروں سے مانگ کر حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے کریم و رحیم رب نے کہا کہ میں رزق کا مالک ہوں، میری مزدوری کرو میرے لیے مشقت اٹھاؤ، میری نوکری کرو مجھ سے تجارت کرو پھر میں ہی ہوں جسے چاہتا ہوں عطا کرتا ہوں، اگر تم چاہتے ہو تو استغفار کرو، پھر کسب اختیار کرو اور صدقہ کرو. یہ قرآن کی مختلف آیات کا مفہوم ہے۔

ہمیں صرف اتنا جانتے ہیں کہ دنیا ایک کھیل تماشہ ہے، مگر ہم نہیں جانتے کہ خدا نے اس دنیا کی زینت کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، بھوک میں مقدر پر شاکر رہنے کی بجائے پیغمبروں نے بھوک سے بچنے کے لیے وسیع رزق اور علم کی دعا کی ہے، ہنر سیکھ کر اپنے ہاتھ سے کسب حلال کرکے، تجارت کرکے بتایا تاکہ پیروکار اپنی کسی بھی حالت کو تقدیر کے ذمے لگا کر سبکدوش نہ ہوجائیں۔

نیت، کوشش اور تدبیر انسان کے ذمے ہے اور رزق رب کے ذمے ہے۔

غریب اور غربت

غریب اور غربت کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو زندہ رہنے کے لیے اپنی 24 گھنٹے کی حقیقی اور بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے سے قاصر ہو, اس کے اخراجات اس کی آمدن سے زیادہ ہوں اور وہ سماجی سہولیات سے محروم ہو تو وہ غریب ہے. 


اور امارت یا امیری میرے نزدیک


24 گھنٹوں کی زندگی میں کی سہولیات کو پورا کرنے کے وسائل کا ہونا امیری ہے. 

یعنی ایک گھر، بیوی بچے، مناسب معاشی بندوبست، کمروں کو ٹھنڈا، گرم رکھنے کی سہولت، سفر کے لیے سواری، تعلیم، علاج معالجے کا معقول اور مکمل انتظام، 

موسم اور تہواروں کے مطابق مناسب خوراک و لباس، اور ان کو محفوظ رکھنے کے لیے مشینری کا بندوبست، رابطے کے لیے آلات، استعمال کے لیے پانی، گیس، بجلی کا ہونا اور آسانی کے ساتھ ان کے استعمال کا خرچہ ادا کرسکنا.

ایک انسان کی حقیقی ضروریات میں آج بھی روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم ہی سر فہرست ہے۔

اب غریب دو طرح کے ہیں ایک جو حقیقی غریب ہیں،

 جیسے ، معذور و محکوم، مظلوم اور مجبور 


اور دوسری طرف باقی تمام لوگ تقریباً عادتاً غریب ہوتے ہیں. 


اس سے ہٹ کر مال و دولت کا غریب ہونا اور خواہشات کا اسیر ہوکر غریب ہونا الگ چیزیں ہیں۔

ہمارے ہاں کالونیل ازم کے بعد جو نئے آقا آئے ان کے قوانین میں غربت کو ایک مسئلہ سمجھنے کی بجائے ایک بزنس انڈسٹری سمجھا گیا اور پھر سرمایہ دارانہ نظامِ سیاست نے ہنرمندوں اور قابل لوگوں کی جگہ اپنی ملوں کے لیے ایک مزدور طبقہ بنایا اور پھر اس طبقے کی پنیری لگا کر سماج کو غریب سماج بنادیا گیا.. 


کسی معاشرہ کے ترقی یافتہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، دیکھا جائے کہ وہ معاشرہ صنعتی ترقی، معاشی انصاف، معاشرتی اقدار، انسانی حقوق کے معیار، روزگار کے مواقع اور دیگر بنیادی سہولیات کے لحاظ سے کس مقام پر کھڑا ہے


حقیقی غربت کا تعلق سماجی اور معاشی ناانصافی،طبقاتی تقسیم، اہلِ اقتدار کی بے حسی یا نااہلی، ملکی وسائل اور سرمایےکی ناجائز تقسیم اور پھر اس سرمایہ کو نچلی سطح تک جانے نہ دینا ہے۔

ملکی و سماجی اور انفرادی سطح پر غربت سے نکلنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کرنا اور کسی ایجنڈے کا نہ ہونا بھی ہے۔


دوسری طرف عادتاً غربت کے بڑے اسباب ہیں، اس میں بنیادی چیز جین کا بھی بڑا ہاتھ ہے، یعنی اگر تین نسلیں غربت سے باہر نہیں نکل سکیں یا دادا اور پوتا غریب ہیں تو پھر یہ جینیٹک پرابلم بھی ہوسکتی ہے۔

اس کے علاوہ اپنی زندگی کو بدلنے کی خواہش کا نہ ہونا، غربت کو ایک بیماری اور خوف سمجھ کر اس سے سمجھوتہ کرلینا، تعلیم کے مواقع ہونے کے باوجود تعلیم حاصل نہ کرنا، تعلیم کے ساتھ ہنر نہ سیکھنا، جوائنٹ فیملی سسٹم جہاں ایک فرد کمانے والا ہو اور باقی بے فکر ہوکر کھانے والے ہوں، غربت کو حکومت کا مسئلہ سمجھنا اور اسے خود حل نہ کرنے کا سوچ لینا، ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ کام کی کوشش نہ کرنا، غربت کو مقدر سمجھنا اور اپنی حالت بدلنے کو گناہ یا پھر مقدر کے خلاف سمجھنا، امیر اور غریب کے درمیان ایک لکیر کا کھنچ جانا، جس سے غریب کو ہر وقت یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ غریب ہے، اور دوسرا امیر ہے،لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کی بجائے انہیں طویل مدتی صدقہ خیرات یا مدد امداد پر پلنے والا بنا دینا، اور کئی نسلوں تک لوگوں کو ہاتھ پھیلانے والا طبقہ بنا دینا۔

حقیقی ریاست مدینہ میں جب مواخات کا نظام عملی طور پر نافذ کرکے دکھایا گیا، تو پیغام دیا گیا کہ غریب اور امیر کی تقسیم اب ختم کردی گئی ہے، تمام لوگ مال و دولت، جاہ و حشمت میں برابر ہو چکے ہیں، اس لیے اس نظام کے بعد بھی جو غریب ہوا یا امیر ہوا تو اس میں اس کے اپنے ارادوں کا یا سماج کی اہلی یا نااہلی کا دخل ہوگا۔

اقوام متحدہ کےدنیا بھر میں غربت کو ختم کرنے اور غریب کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے کئی منصوبے چل رہے ہیں۔

  غربت کو ختم کرنا آج بھی اولین ترجیح ہے. 


لیکن کیا وجہ ہے ، انفرادی و اجتماعی حیثیت سے کام کرتے ہوئے بھی اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکا؟ 

حالانکہ دنیا میں کوئی بھی اقتصادی و معاشی امور کا ماہر یہ نہیں کہہ سکتا کہ دنیا بھر میں وسائل دنیا کی آبادی سے کم ہیں، یا مجموعی طور پر آبادی کی ضروریات وسائل سے زیادہ ہیں۔ 

ایک شخص کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہوئے، جب کسی مسئلے کو حل کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو انفرادی طور پر کسی ایک نقطے سے شروعات کرتا ہے جس سے ایک مثبت تبدیلی کا آغاز ہوجاتا ہے، جیسے جیسے باہمی دلچسپی رکھنے والے لوگ اس مقصد کو سمجھنا شروع ہوتے ہیں، اس شخص کے ساتھ ملنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک کارواں ایک باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار کرلیتا ہے، وہ پہلا شخص جو نچلے درجے پر کام کررہا تھا آہستہ آہستہ لوگوں کے ملنے سے تنظیم کا بانی یا قائد بن کر اوپر والے درجے پر چلا گیا، پھر اس کے اوپر والے لیول سے نچلے لیول تک ایک خلا بن جاتا ہے، اس خلا کو لوگوں کی باتیں پر کرتی ہیں جو اس کے اردگرد شامل ہوجاتے ہیں، وہ اسے سب اچھا کی تصور دکھاتے ہیں، کسی مرضی کے غریب کو راشن کے تھیلے پکڑا کر تصویر بنا کر اوپر لیول تک دکھا دینے سے وہ مطمئن ہوجاتا ہے کہ میری ٹیم کام کررہی ہے، فنڈز بہترین جگہ پر خرچ ہورہے ہیں، مگر ایسا ہونا بند ہوچکا ہوتا ہے، 

دوسری طرف ایک شخص کو کچھ لوگ پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے سرمایہ دیتے ہیں، اپنی کمائی سے کچھ حصہ نکال کر کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں، لیکن اب ان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ جس کو دے رہے ہیں اس کو ٹریک کریں یا پھر اس کو خود کسی مشینری کا حصہ بنائیں وہ اپنے حصہ نکالنے کا فرض ادا کرکے ایک طرف ہوجاتے ہیں اور لینے والا خیال کرتا ہے کہ جس طرح یہ ایک بیوقوف مل گیا ہے اسی طرح کوئی دوسرا بھی مل جائے گا۔ 

اس وقت پوری دنیا کے تمام اکنامکل اور پولیٹیکل سسٹمز، ورلڈ بینک وغیرہ کے ہاں، غربت، کے اسباب، وجوہات، اثرات اور تدارک وغیرہ پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے، مگر کیپٹلزم کے شکنجے میں جکڑی دنیا اس وقت بالکل ایسے کسان کی طرح ہے جو ساہوکار سے بیاج پر قرض لیکر اپنی زمین میں ہل تو چلاتا ہے مگر اس کی ساری پیداوار ساہوکار کے بیاج میں چلی جاتی ہے اور کسان کے حصے میں ہل چلانے کی مشقت کے سوا کچھ نہیں آتا۔

 

اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں