مولوی عبدالحق
آج 16 اگست بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یوم وفات ہےاس موقع پر ان کے خطبات سے متعلق کچھ معلومات درج ذیل ہیں مولوی عبدالحق کے خطبات وہ تحریریں ہیں جو انہوں نے میں نے سامعین کے دل و دماغ سے مخاطب ہو کر پڑھیں یہ خطبات موضوعات کے اعتبار سے متنوع ہیں لیکن ان میں زیادہ تر اردو زبان کے مسائل پر اظہار خیال کیا گیا ہے مولوی عبدالحق کو بابائے اردو کا خطاب اس لیے عطا کیا گیا کیونکہ وہ لگن اور محبت سے ان مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہے اس لئے ان کے خطبات میں اردو زبان کے مسائل پوری وسعت وہمہ گیری سے موجود ہیں مولوی عبدالحق نے کتابوں کے تبصرے اور مقدمات لکھے اور مبصرانہ خصوصیات ابھر کر سامنے آتی ہیں لیکن انکے اور بھی محاسن اور خوبیاں تھیں جو اظہار کے لئے مچل رہی تھیں اس لیے انہوں نے اظہار کے لیے خطبات کا سہارا لیا مولوی عبدالحق کے اسلوب میں ان کی شخصیت کا پر توموجود ہے کیونکہ شخصیت خارجی مشاہدے اور داخلی نظریے سے بنتی ہے اور طرز نگارش ان دونوں خصوصیات کی عکاسی کرتا ہے مولوی عبدالحق نے اردو زبان سے جنون کی حد تک پیار کیا ہے وہ لکھتے ہیں میری تمام عمر اپنی محبوب زبان کی ترقی اور سربلندی کی کوشش رہی ہے اس مقصد میں سب سے زیادہ شدت اس وقت آئی جب ریاست حیدرآباد تہہ و بالا ہوئی تعصب اور عناد نے وہاں کے سب سے شاندار تعلیمی ادارے کی خصوصیات کو مٹا دیا تو میرے جذبات میں ایک زخمی دل کی بے قراری شامل ہو گئی اور میری زندگی کا سب سے اہم مقصد یہ بن گیا کہ پاکستان میں ایک اعلی درجے کا دارالعلوم قائم کیا جائے جو علمی اعتبار سے کسی انگریز یونیورسٹی سے کم نہ ہو اور تمام علوم جدیدہ کی اپنی قومی زبان میں تعلیم دی جائے۔
مولوی عبدالحق نے علی گڑھ سے فیض تعلیم حاصل کیا انہوں نے سر سید کے رفقاءمثلا مولانا حالی نذیر احمد ،محسن الملک اور جسٹس محمود کی صحبت میں تربیت حاصل کی مولوی عبدالحق نے حالی سے ایثار سر سید سے جوش جنون حاصل کیا اس لیے ان کی فکر میں شدت نظر آتی ہےوہ اردو کی محبت میں اس قدر مبتلا تھے کہ اس کے لیے ساری عمر قلمی جہاد کرتے رہے اور علمی طور پر بھی پیچھے نہ رہے اور لب گور تک جدوجہد کرتے رہے ان کی شخصیت کی تمام تر خصوصیات ان کے خطبات میں جھلکتی ہیں مولوی عبدالحق مخالفتوں سے گھبراتے نہیں تھے بلکہ ہر دم ان سے نبردآزما رہتے تھے ان کی زندگی کا ایک مقصد تھا اور اس مقصد کے لئے وہ تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے لئے ہمہ تن تیار رہتے تھے ان میں لچک اور مفاہمت نہ تھی کیونکہ لچک سے ان کے مقاصد خطرے میں نظر آتے تھے انہوں نے عداوتوں نفرتوں اور مخالفتوں کے جوار بھاٹا کے سامنے کبھی سر نہ جھکایا اور مولوی عبدالحق کی زندگی کا یہ پہلو ان کے خطبات میں نمایاں ہے وہ کہتے ہیں
“مخالفت میرے لیے کوئی نئی چیز نہیں میری عمر لڑنے جھگڑنے میں گزری ہے اردو کو اس کے حامیوں نے اتنا نہیں ا بھارا جتنا کے اس کے مخالفوں نے میرا قول ہے کہ وہ آدمی ہی کیا جس نے کچھ مخالف نہ پیدا کیے وہ لڑائی غیروں سے تھی اب اپنوں سے ہے غیروں سے لڑائی میں ولولہ اور امنگ پیدا ہوتی تھی اپنے سے لڑنے میں دکھ ہوتا ہے “
مولوی عبدالحق کی کوششوں سے کراچی میں اردو کالج کی بنیاد رکھی گئی انہوں نے اس کے لیے انتھک محنت کی اور وہ اس کے لیے آخری سانس تک بے چین رہے حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے وہ ذرا نہ گھبرائے دوستوں کی بے وفائیوں سے وہ دلبرداشتہ ضرور ہوئے لیکن ڈگمگائے نہیں وہ اردو کالج کو ایک معیاری جامعہ بنانا چاہتے تھے وہ فرماتے تھے:
“میں اب زندگی کی اس منزل میں ہو جہاں کام سے زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اردو یونیورسٹی کا قیام اب میری زندگی کا مشن ہے اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں چاہے مجھے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچے کراچی میں اردو یونیورسٹی بن کر رہے گی خود قضاوقدر کا منشا ہے سوال دیر سویر کا ہے”
مولوی عبدالحق کے خطبات ان کی تحریروں سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں مولوی صاحب کی تحریر میں تنقید ہوتی ہے اور اس میں تحقیقی رنگ بھی ہوتا ہے اس لئے ان کی تحریروں سے قاری فکر و نظر میں تحریک محسوس کرتا ہے جبکہ خطبات سامعین کے قلب و نظر کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ خطبات میں شخصیت کا پر تو نظر آتا ہے اور مولوی عبدالحق کی مسحور کن شخصیت ان کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے۔
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مولوی عبدالحق کے اسلوب میں ان کی شخصیت پر حالی اور سرسید کی پیروی کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے مولوی عبدالحق نے سادگی کو فن بنا دیا اور یہ فن کسی اور انشاءپرداز میں نہیں ملتا ان کی تحاریر ،اخبار کے مضامین، کتابوں کے مقدمات اور عبدالحق برملا اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ وہ سرسید اور حالی کے تتبع کرتے ہیں اس لیے وہ سادگی اور سلاست کو شعاربناتے ہیں لیکن اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو عبدالحق اور سرسید کی

تحریروں میں بہت زیادہ فرق نظر آتا ہے سرسید سادہ تحریر کے قائل تھے لیکن وہ خوبصورتی پیدا کرنے کے قائل نہ تھے ان کی عبارتوں میں بھونڈا پن نہ ہمواری اور غیر معتدل قسم کی کرختگی پائی جاتی ہے عبدالحق کی تحریروں میں سادگی اور ہمواری شیر و شکر ہیں۔ ان کے اسلوب میں دلکشی اور چاشنی سکون اور ٹھنڈک ہے حالی سے جدا ہے حالی میں یہ عنصر بہت زیادہ ہے اس لئے ان کی تحریروں میں بعض اوقات لذت کی کمی رہتی ہے ہے عبد الحق استدلالی انداز تحریر کے ماہر ہیں وہ اپنے خیالات کو مرتب و منظم انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن ان کی استدلالیت اور تعقل میں سادگی کا حسن ہے جس سے وہ نہایت خوبی اور مہارت سے پیش کرتے ہیں منطق اور تسہیل کا جو انداز عبدالحق نے اپنایا ہے وہ کسی اور انشا پرداز میں نہیں ملتا بعض نقاد کہتے ہیں کہ اس قسم کی نثر حالی کے بدرجہ اتم موجود ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عبدالحق کی نثر حالی سے زیادہ جاندار ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عبدالحق سرسید اور حالی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ مداح ہے سر سید کی نثر بے جان نہ ہموار اور ثقیل ہے حالی کی نثر میں مرثیت اور بے دلی سی نظر آتی ہے عبدالحق کے اسلوب میں سب سے بڑا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ دو ٹوک بات کہنے کے قائل ہیں ان کی تحریروں میں ان کا جذبہ اور شخصیت نظر آتی ہے۔
#افشاں
اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات