آج سے پانچ سال پہلے میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس کو لوگ شیخ سخی، شیخ عالم کے نام سے پکارتے تھے، میں کسی کام کے سلسلے میں ملا اور چند ملاقاتوں میں یوں لگا جیسے ہم صدیوں سے ایک دوسرے سے واقف ہیں، میں بے شمار لوگوں سے ملتا ہوں اور ان کی زندگی کے واقعات کو گھنٹوں، ہفتوں خاموش رہ کر سنتا رہتا ہوں، شیخ عالم پر ایک دن بڑی عجیب سی کیفیت تھی، وہ رو رہا تھا اور روتے روتے اس نے مجھے اپنی زیست کا وہ باب سنا دیا جو وہ سینے میں دبائے ہوئے مرنا چاہتا تھا لیکن پھر اس نے مجھ سے وعدہ لے لیا کہ میرے اصل نام، مقام، کام، زبان، رنگ، نسل وغیرہ کا راز اگر راز ہی رکھو تو تمھیں ہجرت کی ایسی داستان سناتا ہوں جو تمھاری سماعتوں کو بوکھلا دے گی اور زندگی بھر بے چین رکھے گی،
میں نے وعدہ کرلیا اور پھر کسی مہاجر پرندے کے کرب کی طرح میں یہ راز کندھوں پر اٹھائے اٹھائے تھک گیا تو لکھ کر کچھ بوجھ ہلکا کرلیا ، آج میں کئی سالوں پر محیط داستان کو چند لفظوں میں انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کر رہا ہوں اگر آپ پڑھنے والے ہیں تو بین السطور درد کو بھی پڑھ کر محسوس کیجئے گا، جو لکھا نہیں وہ ضرور تصور کی آنکھ سے دیکھئے گا، اگر کبھی کتابی شکل دی تو پھر مفصل داستان لکھوں گا کہ تشنگی باقی نہ رہے۔
اس لیے اس داستان میں سب کچھ فرضی ہے، کسی بھی طرح کی مماثلت محض اتفاق ہوگا، یہ داستان یہاں دو حصوں میں شائع ہوگی اور امید ہے کہ آپ ضرور پڑھیں گے۔
خورشید عالم بنگالی النسل تھا، بنگال کی علیحدگی سے پہلے کراچی پاکستان میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑا. لڑکپن سے نکلا تو اپنے آباؤ اجداد کی طرح پانی کے دھندے میں لگ گیا یعنی ماہی گیری، جال پھینکتے زیادہ مچھلیاں پکڑنے اور اپنے حالات بہتر کرنے کیلئے وہ پانی کے کنارے اپنا ٹھکانہ بدلتا رہا اور ہجرت کرتے کرتے گوادر کے ساحلوں تک جا پہنچا، وہاں پر اسے ایک ہم عمر بلوچ لڑکا زرین ملا جس سے تعلق دوستی میں بدل گیا، زرین اکثر اپنی کشتی پر پانیوں میں نظر نہ آنے والی سرحدوں کو بے دھڑک عبور کرتا ہوا خلیج و فارس تک رسائی رکھتا تھا اور کبھی کبھار سہانے سپنے دیکھنے والوں کو بھی ساتھ لے جاتا تھا، ان کو وہیں پر چھوڑ دیتا لیکن خود واپس ضرور آ جاتا تھا زرین کی نیت تو اچھی تھی بس کام کرنے کا انداز غلط تھا یا پھر اپنی سمجھ کے مطابق وہ اچھا ہی کررہا تھا، ایک دن زرین نے کہا کب تک یوں اپنی طاقت بےکار پانیوں میں ضائع کرتے رہو گے، آؤ میرے ساتھ تمھیں ایک نئے ملک نئے جہان میں لے کر جاتا ہوں جہاں اگر تم نے دو چار سال اچھی طرح محنت کرلی تو دن سنور جائیں گے، خورشید سادہ طبعیت کا لڑکا تھا جو پانی، جال اور مچھلی کو کل کائنات سمجھتا تھا اس کے لیے یہ باتیں بڑی حیرانی والی ہوتی کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہیں دو چار سال لگاؤں اور واپس آکر پانی کا سیٹھ بن جاؤں، اسکول کی اس نے شکل تک نہیں دیکھی تھی، نماز روزے کا سبق جو ماں سے پڑھا تھا وہی اس کا کُل علم تھا، خیر ایک دن وہ سادہ لوح لڑکا ایک چالاک لڑکے زرین کی چکنی چپڑی باتوں میں آ ہی گیا، اپنا کُل اثاثہ جو دو چھوٹے جال، ایک چھوٹی سی کشتی، اور ایسا ہی مچھلیاں پکڑنے والا دوسرا سامان فروخت کیا، ملنے والی رقم جو چند روپے تھے زرین کے ہاتھ پر رکھی اور کہا چل واجا لے جا اپنے طلسم ہوشربا میں، خورشید ایسا سادہ کے نہ ہی کسی کو بتا سکا اور نہ ہی ماں باپ کو خبر کرسکا کرتا بھی تو کیسے آج کل جیسے ذرائع ابلاغ کا تصور تک نہیں تھا.. اگلی شام چپکے سے زرین اس کو اور اس جیسے پانچ سات اور لڑکوں کو لانچ میں بٹھا کر تاریک پانیوں کے دوش لمحہ بہ لمحہ کناروں سے اوجھل ہوتا گیا، صبح جب سفر تمام ہوا تو خورشید نے دیکھا کہ انکی لانچ سمندر میں ایک ٹوٹے پھوٹے ساحل کے ساتھ ہے اور ایک اجنبی زمین پر اجنبی زبان والے استقبال کرنے کو تیار کھڑے ہیں، اس کا کو قاف کا پہلا سہانا سپنا تو کٹے پھٹے ساحل کو دیکھ کر ہی ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ زرین سے بولا کچھ نہیں تھا، یار کی بے وفائی کو وہ چپکے سے پی گیا وہ تھا ہی ایسا جو شکوہ جیسے لفظ سے نا آشنا تھا. وہ ساحل عمان کے کسی جزیرے کا تھا اور خورشید سمیت باقی لڑکے ان کے ہاتھ ایک طرح کے بیچ دیے گئے تھے. وہ اجنبی زبان والے ان کے اب کفیل تھے، خورشید کی قسمت اچھی تھی شاید اس کا کفیل باقیوں کے مقابلے میں نرم دل اور صاحب ثروت تھا، اس نے خورشید کو جو کام سونپا وہ بھی آسان ہی تھا، شیخ ایک بزنس مین تھا اور اس کے خیمے میں روزانہ مختلف لوگوں کی میٹنگز ہوتی تو خورشید کا کام ان کو قہوہ، کجھور اور ڈرائی فروٹ دینا، ان کے سگاروں کی راکھ چٹائیوں پر سے جھاڑتے رہنا اور رات گئے بے شمار برتنوں کو دھونا، یہاں پر خورشید کا سارا لڑکپن گزر گیا اسے ان شیخوں میں ساقی گری کرتے ہوئے زبان کی سمجھ بوجھ ہوگئی تھی، پاکستان میں کسی طرح اس نے والدین سے رابطہ کر ہی لیا تھا اور انہیں کسی طرح کچھ پیسے بھی بھجوا دیتا لیکن وطن واپس جانے کا خواب اس کا ادھورا ہی رہا، پندرہ سال اس کے کفیل نے اسے ان خیموں سے باہر نہ جانے دیا تھا، عمان کس بلا کا نام ہے یہ پندرہ سالوں تک خورشید نہ جان سکا، کفیل کی مار، کئی کئی روز بھوکا اور پتھریلی زمین پر سونا، پہننے کو مل جاتا تو پہن لیتا نہیں تو جو تن پر ہوتا مہینوں وہی دھوتا اور پہنتا رہتا، بے انتہا جبر و ستم سہہ سہہ کر وہ بے حس ہوگیا تھا، قدرت نے اس کے لیے کتنے امتحان لکھے تھے وہ انجان تھا، پندرہ سالوں کے بعد اس کے پہلے کفیل کا انتقال ہوا تو اس کی جگہ اسکا بیٹا اب خورشید کا نیا کفیل تھا، اس نئے کفیل نے اسے صحرائی خیموں سے نکال کر شہر میں پختہ مکانوں پر خدمت کے لیے رکھ لیا، یہاں ایک دن وہ مہمانوں کی مہمان نوازی کررہا تھا کہ اس نے وہاں لگے ایک ٹی وہ پر خبر دیکھی کہ پاکستان سے بنگال علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا ہے، وہ یہ خبر سن کر بھی نہ جان پایا کہ اس کے ساتھ کیا ستم در ستم ہوگیا ہے، اس کے والدین اور دیگر رشتہ بنگلہ دیش کسی طرح شفٹ ہوگئے اور خورشید کا کائنات میں عمان کے باہر واحد رابطہ بھی منقطع ہوگیا. وہ پتھر کا تو ہوچکا تھا بس اب پتھر کے ریزہ ریزہ ہونے کا شاید وقت تھا، کئی بار اس نے پاکستان کے پتے پر خط لکھوا کر بھیجے لیکن وہاں کوئی اس کا ہوتا تو جوابی خط لکھتا، اس کے دل پر بے شمار زخم تھے لیکن چارہ ساز کوئی نہ تھا، یہ اس کا عمان میں اجنبیوں کی طرح رہتے ہوئے.مسلسل بیسواں سال تھا اور ایک دن کہ اس کے نئے کفیل نے اسے ایک پک اپ گاڑی کے پیچھے بٹھایا اور وہ گاڑی ایک بڑے قافلے کے ساتھ چلتی ہوئی مختلف ملکوں کی سرحدوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی مملکتہ البحرين آن پہنچی، یہاں اس کے کفیل کی شادی ہونا طے پائی تھی، شادی کے ہنگامے اور جشن ایک ماہ یہاں بحرین میں چلتے رہے اور وہ یہاں بھی کفیل کے گھرانے کا ساقی ہی رہا، یہاں آکر اسے چند دوسرے ہم زبان میسر آئے ایک ایسی زبان جسے وہ سولہ سالوں سے بھول چکا تھا، ان بنگالیوں نے بتایا کہ اب ہمارا ایک الگ وطن ہے ہم آزاد ہیں یہ ہمارے پاسپورٹ دیکھو یہ ہمارے اپنے بنگلہ دیش کے ہیں، اس کے لیے یہ سب کچھ ایک اساطیری داستان کی مانند تھا، اس کے ہاس نہ تو پاکستان کا پاسپورٹ تھا اور نہ ہی شناختی کارڈ تھا، اس کے پاس ایک شناخت تھی جسے وہ بچپن سے اپنے ساتھ رکھتا تھا اور یہ تھا اس کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ جو پاکستان میں ماہی گیری کے وقت اس کے باپ نے بنوا کر اس پر مومی کاغذ چڑھووا کر اس کو دیا ہوا تھا کہ خدانخواستہ اگر پانی میں کوئی حادثہ ہوجائے تو شناخت تو ہونی چاہیے کہ یہ کون ہے. رنگ و روپ، زبان اور “جمن پرچی” کے سوا اس کے پاس کوئی شناخت نہیں تھی .ہم زبانوں سے بات کرتے ہوئے اس کا بچپن اور لڑکپن اس کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا، خورشید عالم نے ان بنگالیوں کو اپنی ساری دردناک کہانی سنا دی، انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ بنگلہ دیش میں اس کے والدین کو ڈھونڈنے میں مدد کریں گے، اور اگر وہ اپنے کفیل کا منت ترلہ کرے تو ہوسکتا ہے وہ اسے بنگلہ دیش یا پاکستان جانے کی اجازت دیدے، کفیل کی نئی نئی شادی ہوئی تھی وہ خوش تھا اور خورشید کے لیے شاید قدرت نے ایک دریا سے نکلنے کا بندوبست کردیا تھا، وہ صبح کفیل کو قہوہ دیتے ہوئے دل کی خواہش لبوں پر لے آیا اور ڈرتے ڈرتے رہائی کی اجازت مانگی، کفیل نے حیرت سے اسے دیکھا اور پوچھنے لگا تم کس ملک جاؤ گے تمھارا ملک کون سا ہے اور کس کے پاس جاؤ گے، بابا نے تو مرنے سے پہلے تمھارے بارے میں بتایا تھا کہ تمھارا اس دنیا میں کوئی نہیں اسی لیے کبھی ہم نے تمھارے کہیں جانے کا ہوچھا ہی نہیں، خورشید زندگی میں پہلی بار پھوٹ پھوٹ کر رویا اور کفیل کے قدموں میں بیٹھ کر ساری داستان سنادی، وہ حیران کے تم اتنے سال یونہی بے دام اور بے زبان غلام بن کر رہے بتاتے تو سہی کہ تمھارا کنبہ بھی ہے ہم اسے بھی یہاں بلوا لیتے، خورشید عالم نے کہا بہرحال جو ہوا سو ہوا مجھے ایک بار یہاں سے جانے دو اگر قسمت نے یاوری کی تو واپس ضرور آؤں گا. شیخ نے اسے زادہ راہ، چند تحائف دے کر وہیں بحرین میں چھوڑ دیا اور خود عمان واپس چلا گیا. یہ وقت تھا جب پاکستان کا سفارت خانہ کھلے چند سال ہوئے تھے اور بنگلہ دیش کا سفارت خانہ کھلے شاید ایک سال ہوا تھا، وہ کسی طرح ہوتا ہوا ایک جوش اور ولولے کے ساتھ پاکستان کے سفارت خانے پہنچا، پاکستان کا جھنڈا دیکھ کر تو وہ ایک بار سجدے میں گرگیا، سفارت خانے کے اندر گیا انہوں نے خوشدلی سے استقبال کیا جب مدعا پوچھا تو اس نے مختصر اپنی کہانی سنائی اور ثبوت کے طور پر اپنا سرٹیفکیٹ انہیں دکھایا، انہوں نے سرٹیفکٹ لے کر اس سے کچھ فارم وغیرہ پر انگوٹھے لگوائے اور پوچھا کہاں جانا چاہتے ہو اس نے کہا پاکستان یا بنگلہ دیش جہاں بھی بھیج دیں۔ سفارتی عملے نے ایک ہفتہ بعد آنے کا کہا، اس نے کہا مجھے یہاں ہی ایک ہفتہ رہنے کی اجازت دو میں غریب الدیار ہوں میرا یہاں کون ہے جس جے پاس جاؤں گا، سفارت خانے میں جگہ نہ ملی تو وہ یونہی مسجدوں اور کھلے آسمان تلے ہی شب وروز بسر کرنے لگا، اس کی کل متاع اس کے پاس ایک چھوٹے سے بیگ میں تھی جسے وہ اپنے ساتھ چمٹائے رکھتا۔ ہفتہ گزرا وہ سفارت خانے گیا وہاں انہوں نے پہچاننے سے انکار کردیا اور وہاں جب اس مسکین نے کچھ رونا دھونا چاہا تو اسے باہر نکال دیا گیا، اب اس کے پاس رنگ اور زبان کے علاوہ تیسری کوئی شناخت نہیں تھی، وہ وہاں سے روتا دھوتا بنگلا دیش کے سفارت خانے گیا اور وہاں سے بھی اسے ٹکا جواب ملا کہ ہم کیسے مانیں تم بنگالی ہو کوئی شناخت، کہاں سے آئے اور کیسے آئے، کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ تقسیم سے پہلے کا مہاجر ہے،
دو تین بار چکر لگانے کے بعد وہ تھک ہار کر قسمت کے لکھے کو اسی طرح جان کر چپ چاپ بحرین کی گلیوں میں دن رات بسر کرنے لگا، ایک صبح وہ جاگا تو اس کا واحد سہارا اس کا بیگ جس میں کچھ نقدی اور کپڑے کا ایک جوڑا تھا وہ بھی غائب تھا، شکوہ کرنا تو اسے آتا نہیں تھا اور کرتا بھی تو کس سے کرتا، بھوکا پیٹ تھا جب کہیں سے کھانے کو کچھ نہ ملا تو وہ کچرا کنڈیوں کی جانب چل دیا وہاں سے جو کچھ ملا کھا کر وہاں سے گتے کے ٹکڑے جو پیکنگ کیلئے استعمال ہوتے ہیں وہ اٹھائے ایک قریب درخت کا انتخاب کیا اور اس کے نیچے گتہ نشین ہوگیا، اس کے دن اب یوں گزر رہے تھے نہ وہ کسی کی نظر میں آیا اور نہ کسی کے در پر وہ گیا، یوں ہی سال بیت گیا، وہ کچرے کے ڈھیر میں سے گتے کے بکس اٹھاتا رہتا اور درخت کے نیچے بچھاتا رہتا، پہننے اوڑھنے کے لئے اس کے پاس تین کپڑے تھے، پتلون، قمیص اور چادر اور جوتوں کا جوڑا جو وہ ہر وقت پہنے رکھتا اس کے سوا اس کے پاس کاغذی گتے تھے جو اب ایک بڑے ڈھیر کی شکل اختیار کرگئے تھے، کچرے سے بچا کچھا کھانا وہ لے آتا، اور اپنے ساتھ بلیوں اور کتوں کو شریک کرتا اور مل بانٹ کر کھا پی لیتا، جب بھوک نہ ہوتی تو یوں دن رات کھلے آسمان تلے گتوں میں لیٹے لیٹے ہی ایک گیت گاتا رہتا
اوپر گگن وشال ہو ہو ہو نیچے گہرا پاتال ہو ہو ہو
یہ نغمہ اس کا باپ مچھلی پکڑتے ہوئے گاتا تھا پتا نہیں اسے کیسے یہ گیت یاد رہ گیا تھا وہ یہی گاتے دہراتے ہوئے سو جاتا تھا۔
توقير بُھملہ
مملکتہ البحرين
