پیکنگ والے گتے چننا خورشید کی زندگی کا اب واحد مقصد اور مشغلہ تھا، جس دن اسے کچرے سے کارٹن گتہ نہ ملتا تو اداس ہوجاتا، اسے اسی کام میں تسکین ملتی تھی اور دھوپ چھاؤں میں وہ انہی سے جی بہلاتا رہتا، ایک دن ایک بڑی گاڑی اس کے پاس آکر رکی اس میں ایک انگریز تھا نیچے اترا اور اس سے پوچھا یہ گتے کتنے میں بیچو گے، وہ عمان میں رہ کر کئی سال اپنے پہلے کفیل کے ہاں غیر ملکی تاجروں کی گفتگو سنتا رہا تھا عربی کے علاوہ انگلش کی سدھ بدھ تو رکھتا تھا، اسے سمجھ تو آگئی لیکن کوئی کچرہ کیوں خریدے گا یہ بات اس کے پلے نہیں پڑ رہی تھی، اس نے پھر پوچھا بتاؤ کتنے میں بیچو گے تو ہکا بکا ہوکر الٹا سوال کیا کیا کچرا بھی فروخت ہوگا؟ خیر اس کو پتا ہوتا کہ اس کی کیا قیمت ہے تو وہ بتاتا بھی،خورشید نے کہا مفت میں لے جاؤ میں اور جمع کرلوں گا، انگریز نے جب یہ سنا تو پریشان ہوگیا کہ یہ کون سی مخلوق ہے، گورے نے اسے بغور دیکھا بالوں کی گرد سے اٹی رسیوں کی مانند لٹکتی لٹیں، بگ تحاشا میل سے تر بتر بے ترتیب بڑھی ہوئی داڑھی مونچھیں، جابجا پیوند لگے کپڑے اور بھوک سے بے حال لاغر جسم پھر اوپر سے اس کے پاس سے آنے والی سرانڈ، اس نے پتا نہیں کیا سوچا خورشید کو گاڑی میں ساتھ بٹھایا اور اپنے گودام لے آیا پہلے اچھی طرح نہلا دھلا کر صاف لباس پہننے کو دیا پھر کھانا کھلا کر حجام کے پاس لے گیا بال کٹوا کر اور شیو کروا کر اسے پہلا جیسا صاف ستھرا خورشید عالم بنا دیا، گورے نے اسے اپنے گودام میں چھوڑا اور تاکید کی جی بھر کر نیند پوری کرو جو چاہیے مل جائے گا، شام تک میں دوبارہ آؤں گا اور خود کسی کام سے وہاں سے چلا گیا، خورشید جو پہلے شیخوں کا ستایا ہوا تھا وہ گورے کو بھی ایک ویسا ہی نیا کفیل تصور کرتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا، پہلے والی جگہ چھوڑ کر کسی اور نئی جگہ بسیرا کرلیا، یہ وقت عربوں کے ہاں دولت کی ریل پیل تیل اور عروج کا تھا دھڑا دھڑ غیر ملکی مصنوعات کی ملک کے اندر ترسیل اور فروخت کے بعد لوگ اپنی پرانی چیزیں گھروں کے باہر گلیوں میں پھینک کر جان چھڑانے لگے، گاڑی، مکان فرنیچر الیکٹرانکس اور دیگر سامان جب نیا آیا تو پرانے سامان اور نئے سامان کی پیکنگ باہر پھینکنے سے رہائشی علاقوں کی گلیوں نے کچرا کنڈیوں کے ڈھیروں کی شکل اختیار کرلی. مقامی لوگ اب امیر ہورہے تھے تو معمولی کام کرنے کو توہین سمجھنے لگے، غیر ملکی یا مقامی ایسے لوگ اسوقت تھے ہی نہیں جو کوڑا کرکٹ اٹھانے والے ہوں۔
خورشید عالم نے کسی عربی کے متروک پرانے ٹوٹے گھر جس کی چھت اور دیواریں گر چکی تھیں اسکو اپنی رہائش گاہ بنالیا اور کچرہ چن کر اس گھر کے صحن میں ڈھیر لگانے کا مشغلہ جاری رکھا، ایک پتلون ایک قمیض اور ایک چادر میں اس نے بحرین کے اندر یونہی کچرا چنتے اور بچا کھچا کھاتے ہوئے تین یا چار سال گزار دیے، وہ بے چارہ تو دنوں یا مہینوں یا پھر سالوں کا حساب تو رکھ ہی نہیں سکتا تھا بس اندازے سے کام چلا رہا تھا. ایک دفعہ علی الصبح وہ کچرہ کنڈیوں کو کھنگال رہا تھا تو ایک عربی جو مملکت میں کسی بڑے عہدے پر فائز تھا اس نے دیکھا تو سمجھا کہ کوئی بھوکا یا پاگل شخص یہاں سے کھانا ڈھونڈ کر کھا رہا ہے اس نے خورشید کو بلا کر پوچھا تو خورشید نے بتایا کہ وہ کھانا ڈھونڈ رہا ہے اور کچرا بھی اٹھاتا ہے.
شیخ کو اس پر ترس آگیا اسے کھانا کھلایا، اس کی رہائش کا پوچھا اور وہاں ساتھ چلا گیا، وہاں دیکھا تو گتے کی تہوں کا بستر اور کچرے میں پھینکی جانے والی مختلف چیزوں کے الگ الگ چھوٹے چھوٹے ڈھیر بنے ہوئے تھے، شیخ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، تھوڑی دیر سوچ کر شیخ کہنے لگا تم پورے ملک کا کچرہ کیوں نہیں اٹھاتے، اگر تم ایسا کرو تو بہتر زندگی گزار سکتے ہو، شیخ اسے اپنے فارم پر لے گیا وہاں تفصیل سے اس کی کتھا سنی حالانکہ اور کہا یہاں تمھیں ایک کمرہ دیتا ہوں آرام سے اپنی مرضی سے رہو، سوچ لو میں تمھیں حکومت کی جانب سے کچرا اٹھانے کا اختیار دلوا دوں گا اور بدلے میں تمھیں کھانا، رہائش وغیرہ مل جائے گا اس وقت خورشید کی عمر پینتیس چھتیس سال کے لگ بھگ تھی، کہنے لگا شیخ میں اب کسی کفیل کے ماتحت زندگی نہیں گزار سکتا، میں آپ کے ساتھ کام نہیں کر سکتا، شیخ نے مسکرا کر کہا بے فکر رہو اب میں تمھیں ایک کفیل بنانے کا سوچ رہا ہوں، وہ شیخ میونسپل کمیٹی کا چیئرمین تھا اور ملک میں بے ہنگم کچرے کے مسئلے کو حل کرنے کا ٹاسک اس کے ذمہ تھا، شیخ نے باتوں باتوں میں خورشید کی ذہنی استعداد اور عربی زبان میں مہارت جانچ لی تھی ،چند دن اپنے فارم پر رکھا پھر ایک دن شیخ نے گورے کی طرح خورشید کو نہلا دھلا کر ساتھ لیا اور آفس جاکر اس کی تصویریں بنوائیں، اس کا بحرین کا شناختی کارڈ بنوایا، ایک لیٹر پر اس کی شہریت کی درخواست لکھی اس کا انگوٹھا لگوایا اور وزیراعظم کو بھجوا دی، ایک ہفتے کے اندر اندر خورشید عالم کے پاس بحرینی سرخ پاسپورٹ تھا اور یوں وہ ایک فروخت شدہ خدام سے بحرین کا باعزت شہری بن گیا، شیخ نے اپنے فارم پر اسے عارضی طور پر ایک کمرہ دیا، اسے تھوڑے بہت زندگی کے اسرار و رموز سکھائے، اسکی عربی زبان کو بہتر بنایا، اور اسے کہا اب مملکت کے اندر سے کچرا ختم کرنے کا کام تمھارا ہے کیسے ختم کرنا ہے یہ تم نے سوچ کر مجھے بتانا یے، یہ شاید مذاق تھا یا کچھ اور تھا خورشید نے اسے سنجیدہ لیا اور کام شروع کردیا وہ کچرا اٹھواتا، گدھا گاڑیوں میں لوڈ کروا کر دور دراز صحرا میں لے جاتا وہاں قدرتی بنے کھڈوں میں کچرے کو پھینک کر خود ہی ہر کیٹیگری کا کچرا علیحدہ علیحدہ کرتا اس کی معاونت کے لیے اسے دس بندوں کی ٹیم مل گئی تھی، وہ ان سے خوب کام لیتا خود تو وہ آرام نہیں کرتا تھا ساتھ دوسروں کو بھی لگائے رکھتا تھا، اب اس نے گلیوں کو کسی حد تک صاف کروا کر کچرے پھینکنے کی باقاعدہ جگہ بنوانی شروع کردی، اور کچرے سے علیحدہ ہونے والے سکریپ اور گتے کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنانے لگا، اب وہ صرف خورشید عالم نہیں رہا تھا، نام مختصر کرکے شیخ عالم کے نام سے جانا جانے لگا تھا، وہاں کئی سالوں بعد اسے وہی انگریز ایک بار پھر مل گیا گورا تو اسے نہ پہچان سکا لیکن خورشید اسے پہچان گیا اسے ساری بات بتائی تو گورا خوش ہوا اور اس کے ساتھ کچرے کے ڈھیروں کو دیکھنے چلا گیا وہاں جا کر خورشید کا کام جب اس نے دیکھا تو دنگ رہ گیا، بغیر کسی مشینری، تجربے اور مہارت کے اس نے کچرے کو کامیابی سے ٹھکانے لگا دیا تھا، گورے نے اسے ساتھ لیا اور ایک بار پھر اسی گودام میں آگیا جہاں سے چند سال پہلے خورشید ڈر کر بھاگ گیا تھا، اس نے خورشید کو سمجھایا کہ کس طرح کون سی چیز کون سے ملک بھجوائی جاسکتی ہے. کون سا کچرا فائدہ مند ہے اور کون سا محض کچرا ہے، نیز کچرے سے دولت کیسے کمائی جاسکتی ہے، اس نے کہا تم تو مفت میں سونے کے ڈھیروں پر بیٹھے ہو اور تمھیں اس کا اندازہ ہی نہیں، اگر میرے ساتھ پارٹنرشپ کرلو یا اپنا الگ کام کرلو میں تمھیں سارا طریقہ کار سکھا دوں گا، خورشید نے پارٹنرشپ تو نہ کی لیکن سارا طریقہ کار آہستہ آہستہ اچھی طرح سمجھ لیا، گورے نے اس کی بات دوسرے ممالک کے ڈیلروں سے کروا دی، اور وہ خورشید سے کچرا خریدنے پر راضی ہوگئے، خورشید نے یہ بات اپنے مربی شیخ کو بتائی تو اس نے کہا آج ہی تمھارا لائسنس بنواتا ہوں تم کچرے کا سامان باہر کے کسی بھی ملک میں بغیر کسی ٹیکس کے لے جاسکتے ہو، اور کچرا بحرین سے باہر جانے پر جتنا خرچہ آئے گا وہ مملکتہ البحرين کے ذمہ ہوگا، پھر ایک دن آیا اس کے پاس ایک پرمٹ تھا جس پر سولہ ملکوں میں جانے کا اجازت نامہ تھا جس میں بنگلہ دیش اور پاکستان کا نام اس نے خود لکھوایا تھا، ایک بڑے بحری جہاز میں کچرے کا حاصل شدہ سکریپ گتہ اور کچھ دیگر سامان لدوا کر خورشید عالم جو اب شیخ عالم تھا وہ مکمل جہاز کا کفیل تھا، خورشید نے گورے کے بتائے ہوئے طریقوں اور رابطوں کے مطابق کچرا دوسرے ممالک فروخت کیا ٹھیک ٹھاک ڈالرز حاصل ہوئے، واپسی پر اس نے جہاز کو بنگلہ دیش کی طرف موڑ دیا، بنگلہ دیش جہاں اس نے اپنے اہل خانہ کو ڈھونڈنا تھا لیکن کیسے اسے اس چیز کی فی الحال سمجھ نہیں تھی، وہ ایک مکمل عربی شیخ کا روپ دھار چکا تھا، اس سے گفتگو کرنے والا کوئی بھی جان نہیں سکتا تھا کہ یہ عربی اصل میں پاکستانی یا بنگالی ہوسکتا ہے، وہ عرب کے رنگ میں رنگتا چکا تھا، بنگلہ دیش میں وہ ایک عرب تاجر کی حیثیت سے داخل ہوا اور سرکاری ریکارڈ خانوں تک پاپڑ بیلتا بیلتا جا پہنچا، فلاں وقت کے فلاں نام والے لوگوں کو ڈھونڈتا ہوا بنگلہ دیش میں قیام کے چوتھے روز وہ ایک ایسے گھر کے باہر تھا جس کے مکینوں کو دیکھے سنے ہوئے اسے کم و بیش پچیس برس بیت گئے تھے، اس کے اپنے بالوں میں چاندی کے تار ابھر آئے تھے، دستک دی اور ایک انجان سی شکل نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون ہے کہا خورشید عالم ہوں، پھر پوچھا گیا کون خورشید عالم تو اس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے وہ وہیں دروازے میں بیٹھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا، گھر کے مکین باہر کو دوڑے تو دیکھا ایک عربی گھر کے باہر بیٹھا رو رہا ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہ آئی، شور کی آواز سن کر گھر کے اندر سے ایک بوڑھی عورت لاٹھی کے ساتھ ناتواں بدن گھسیٹتی ہوئی برآمد ہوئی، نحیف آواز میں مختصر سے ہجوم کو پیچھے ہٹنے کا کہا، اور باہر جھانکا تو ممتا کو جگر کے ٹکڑے کے مہک نے پاگل کردیا، وہ یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں تھی، بے یقینی سے اس کے لرزتے کانپتے لبوں سے جیسے سرگوشی ہوئی،کیا میرا شیدی آیا ہے اور خورشید عالم کو یوں لگا جیسے خدا اس سے پہلی بار مخاطب ہورہا ہے، مصیبتوں کا مارا اور دکھوں کے کنویں سے نکلا ہوا وہ یوسف لپک کر ماں کے قدموں سے لپٹ گیا،کتنی ہی دیر ماں اپنے لعل کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر بلکتی رہی، خورشید کی اس لحاظ سے قسمت اچھی تھی کہ اس کا سارا خاندان کسی نہ کسی طرح زندہ بچ گیا تھا، بہنوں بھائیوں کی شادی ہوچکی تھی وہ اور انکے بچے، بوڑھے ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار، سب اس کے گرد حیران و پریشان کھڑے تھے۔ زندگی میں پہلی بار کوئی اس کے لیے پانی لارہا تھا اور کوئی چائے، اس نے بس ایک دن وہاں قیام کیا، نہ کسی کی داستان سنی اور نہ کسی کو سنا سکا، وہ درویش اسی پر صابر و شاکر تھا کہ جیتے جی ایک بار پھر اپنے پیاروں کو دیکھ لیا تھا.. گھر والوں کو ایک مناسب رقم دی اور کہا جس طرح بھی ہو پورا خاندان چند دنوں میں اپنے پاسپورٹ وغیرہ تیار کروائے میرے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہ ہو، اور خود واپس چلا گیا کہ میں جاکر آپ کے وہاں آنے کا بندوبست کرلوں۔
ایک ماہ کے اندر اندر اس نے پورے خاندان کو بحرین بلوا لیا اور یہاں ان کی مستقل سکونت کا بندوبست کردیا۔
شیخ عالم سے مملکت کے بڑے بہت خوش تھے اس کو کچرا اٹھانے، اور جہاں مرضی لے جانے پر ہر طرح کی اجازت، ٹیکس کی چھوٹ اور وطنی شہری کی تمام سہولیات میسر تھیں، آہستہ آہستہ اس نے ایک بہت بڑی کمپنی کھڑی کر لی جس کا نام اس نے “عالمز ورلڈ” عالم کی دنیا رکھا، آہستہ آہستہ اس نے ایسی ترقی کی کہ اس کے پاس ذاتی بحری جہاز ہیں جو سکریپ پوری دنیا میں فروخت کرتے ہیں۔
عاجزی، درویشی اور انکساری اس میں ہر بڑھتے دن کے ساتھ بڑھتی گئی،
اس نے اپنے مہربان شیخ تمیم جس نے اسے کچرے کے ڈھیر سے اٹھا کر جہازوں کا مالک بنا دیا اس سے وعدہ لیا تھا کہ میرا پس منظر میرے اور آپ کے درمیان رہے گا، مجھے آپ سے پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا اور چاہتا ہوں آپ کے بعد مجھے لوگ میری نئی شناخت سے جانیں میرا تلخ ماضی صرف مجھ تک ہی محدود۔
میں نے آنسو صاف کرتے ہوئے صرف دو سوال پوچھے ، خورشید اگر شیخ تمیم نہ ملتا تو تم اس وقت کہاں ہوتے، اور کیا کبھی اذیت بھری زندگی سے نجات کا نہیں سوچا تھا کیا؟ سوچ کر کہنے لگا میں نے کبھی کبھی سوچا تھا کہ سمندر کے درمیان جاکر چپ چاپ بیٹھ جاؤں اور تب تک بیٹھا رہوں جب تک روح جسم سے نکل کر فرار نہ ہوجائے، لیکن مجھے ماں خواب میں دکھائی دیتی تھی جو کہتی تھی ملے بغیر چلے گئے ہو، بس میں جاگ جاتا اور مرنے کا خیال ترک کردیتا، اور دوسری بات اگر شیخ تمیم نہ ملتا تو تم نے سنا تو ہوگا ہجرت کا نتیجہ دو چیزوں پر ختم ہوتا ہے، ایک تو ہم سنتے ہیں قافلے کو رستے میں لوٹ مار کے بعد قتل کردیا گیا اور دوسرا یا پھر قافلہ تکلیفیں سہتا ہوا اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا، میں نے بھی ہجرت کی تھی، میں لٹنے کے باوجود بچ گیا تھا، اگر میرا محسن شیخ تمیم نہ بھی ہوتا تو ان دو میں سے ایک مقدر پر تو میرا حق بنتا تھا موت یا منزل۔
ختم شد
سب کچھ فرضی اور افسانہ ہے، کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی.. پڑھنے کا شکریہ۔
