نوجوان شاعر،کالم نگا،,افسانہ نگار اور تجزیہ نگار شعیب شوبی
انتخاب و پیشکش:افشاں سحر
تعارف:
نوجوان شاعر،کالم نگا،,افسانہ نگار اور تجزیہ نگار شعیب شوبی 14 اپریل 2000ء کو شاہینوں کے شہر سرگودھا کی تحصیل ساہی وال کے نواحی گاؤں صاحبہ بلوچاں میں پیدا ہوئے۔آپ نے جون 2022ء میں جامعہ سرگودھا سے اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
آپ کا اصل نام محمد شعیب جب کہ قلمی نام شعیب شوبیؔ ہے.آپ کے والد کا نام محمد عبداللہ ہے جو زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔آپ نے اپنے ادبی سفر کا آغاز دورانِ تعلیم کالم نگاری سے کیا بعد میں آپ افسانہ نگاری اور شاعری کی طرف آ گئے۔
کلام
ہجر لاحق ہو اگر تو اُسے رسوا کرنا
میری خو دل کی ہتھیلی پہ پھپولا کرنا
میرے پیچھے تو میسّر ہے جنھیں شام و سحَر
خاک سمجھیں گے وہ غربت میں گُزارا کرنا
زر کے ملنے پہ گنہ گار سبھی حاجی ہوئے
خوب آتا ہے اِسے لوگوں کو اندھا کرنا
جب کبھی بات تِرے نام کی آئی وطن
کون سمجھا ہے یہاں جان کی پروا کرنا
مجھ کو اے عیسیٰ مِرے چینِ جگر کر دے عطا
آپ کو آتا ہے بیماروں کو اچّھا کرنا
دردِ سر لے کے بھی ہم ایسوں کی عادت نہ گئی
چوٹ کھا کر بھی حَسینوں کی تمنّا کرنا
ایک حسرت کہ تمنا سی رہی دل میں مِرے
یعنی آیا نہ مجھے دل کو کسی کا کرنا
میں نے ہر جاتی ہوئی شب میں پکارا ہے تمھیں
تم بھی یہ کام مِری جان ہمیشہ کرنا
فرطِ جذبات میں جذبات کو محدود رکھو
یعنی اِس عشق کی بہُتات کو محدود رکھو
حُکمِ حاکم ہے کہ اِس شہر میں جینا ہے اگر
چپ رہو اور سوالات کو محدود رکھو
آؤ سِکھلاؤ تمھیں جینے کا میں ڈھنگ نیا
بات بڑھتی ہو اگر بات کو محدود رکھو
کیا سبب ہے جو کدورت ہے زمانے بھر میں
حُکم کو سمجھو خطابات کو محدود رکھو
آ ہی نکلے ہو اگر دشتِ محبت تو یہ سر
خم رکھو اور جوابات کو محدود رکھو
تو بھی اپنا نہ ہوا اور خدا چھوڑ دیا
سوچتا ہوں کہ تِرے واسطے کیا چھوڑ دیا
تیرا در ، تیری گلی اور تو چھوڑا نہ گیا
ورنہ جس جس کو یہاں تو نے کہا چھوڑ دیا
اُس ستم گر کی نگاہوں پہ بھروسہ تو نہیں
تو اگر کہتا ہے جا مان لیا ، چھوڑ دیا
سانس تازہ ہو مِری اور کہیں حَبس گھٹے
اس لیے آج ذرہ دل کو کھلا ، چھوڑ دیا
زورِ بازو سے نہ بن پایا تو کہنے وہ لگا
مسئلہ تجھ پہ مِرا میں نے خدا چھوڑ دیا
کب مِرے حق میں چَلائی ہے زباں لوگوں نے
ہر جگہ اپنی چَلائی ہے دکاں لوگوں نے
طرزِ الفت رکھا دنیا سے نہاں لوگوں نے
اور عداوت کو مگر رکھا عیاں لوگوں نے
فرقوں میں بانٹ کے ہم سادہ مزاجوں کو یہاں
اپنے بارے میں رکھا اچّھا گماں لوگوں نے
سادہ لوحی پہ مِری ہنستے رہے لوگ سدا
اور محبت سے مُکرنا ہے کہاں لوگوں نے
میں سمجھتا تھا یہیں لوگ سراہیں گے مجھے
بعد مرنے کے سنی آہ و فغاں لوگوں نے
وہ گُزرتے ہوئے آثار نہیں رکھتا کبھی
بے وجہ ڈھونڈے ہیں راہوں میں نشاں لوگوں نے
ہاتھ پھلائے ہوئے دنیاء دِل دان کی ہے
جب کبھی ہم کو پکارا یے جہاں لوگوں نے
چل دیے بزم سے جانے کا اِشارہ جو ہوا
ہم سے ٹالا نہ گیا حکم تمھارا جو ہوا
تم نہ سمجھو گے جدائی کی اذیت کو ابھی
تم کو اغیار کی بانہوں کا سہارا جو ہوا
عشق میں حرفِ مُکرر کا میں قائل تو نہیں
تم ہی سے ہوگا یہ بالفرض دوبارہ جو ہوا
ہم تصوّف و عبادت سے ہیں کیوں دور کھڑے
داڑھی والوں کا محمد پہ اِجارہ جو ہوا
آفتی فوج کے غُنڈوں سے شناسائی بڑھی
ہم کو اِک شخص مَحبت میں گوارا جو ہوا
اب کے لوگوں کو تجارت پہ بھروسہ ہی نہیں
پہلے سودے میں بڑا سب کا خسارہ جو ہوا
چین غرقاب ہوا اور الم اچھے لگے
اپنا اِک اشک مَحبت میں سِتارہ جو ہوا
شوقِ غِلماں و سَبو اپنا سبھی جاتا رہا
گندُمی ایک حسینہ کا نظارہ جو ہوا
گیلی پلکوں کا سبب جانتا ہوں میں ، سو سنو!
بھول کے آگے بڑھو چھوڑو ، خُدارا جو ہوا
میں ہوں حالات کا روندا ہوا ، مارا ہوا ، شخص
تو مگر وقت کی مُنڈیر پہ آیا ہوا شخص
اب تعلق نہ توقع نہ اِشارہ ہے کوئی
یاد آتا ہے مگر دل سے اُتارا ہوا شخص
کٹ گئ عمر شبِ ہجر مگر کٹ نہ سکی
تم بتا سکتے ہو کیسے وہ تمھارا ہوا شخص
وقت ہرگز میں تِرے دام نہیں آنے کا
تو بلندی سے گراتا ہے اُٹھایا ہوا شخص
اب کوئی حرفِ دعا ہے نہ کوئی دستِ دعا
تو مگر وقت کی رنجش سے بچایا ہوا شخص
کوئی منصب نہ خزانہ نہ جزا چاہتی ہے
یہ محبت تو فقط اُس کی رضا چاہتی ہے
کچھ سروکار نہیں اس سے کہ کب کون مرا
“روز اِک تازہ خبر خلقِ خدا چاہتی ہے”
لاکھ بے درد بنی پھرتی ہو دنیا یہ مگر
مجھ سے ہر حال میں پھر بھی یہ وفا چاہتی ہے
خاص نعمت تھی خدا کی سو گزارا ہے تجھے
زندگی مجھ کو بتا اور تو کیا چاہتی ہے
تجھ کو پانے کی تمنا یہاں میری ہی نہیں
دیکھ آ کر یہی گلشن کی ہَوا چاہتی ہے
ہم نے تو درد کی دولت بھی لٹائی ہے سبھی
مفلسی تو ہی بتا ہم سے تو کیا چاہتی ہے
ہر طرف بکھری ہوئی خوابوں کی لاشیں ہیں یہاں
زندگی اب تو تحفط کی قَبا چاہتی ہے
خامشی چیختی ہے غم کا سماں ہوتا ہے
درد ایسے مِرے اندر کا عیاں ہوتا ہے
یوں نہیں ہجر میں تیرے ہو گئے ہیں تنہا
لاکھوں ہیں اِک بھی مگر تجھ سا کہاں ہوتا ہے
غم کے اظہار کو ہیں دنیا میں حیلے کتنے
ہائے وہ دکھ جو خموشی میں نہاں ہوتا ہے
سو دلائل ہوں مِرے پاس مِرے حق میں بھلے
سچ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کا گماں ہوتا ہے
لمحے سب میرے میں جو کر دوں تِرے نام اگر
وقت گنتی میں مِرا کیسے زیاں ہوتا ہے
پہلے پہلے تو توُ رہتا تھا نگاہوں میں مِری
اب ٹھکانہ ہے کہاں تیرا جہاں ہوتا ہے
حق کا پرچار کیے گزرے پیمبر اکثر
دل جو بنجر تھے رہے دنیا میں بنجر اکثر
جو مِرے سامنے پڑھتے ہیں قصیدے پیہم
میرے جانے پہ اُٹھاتے ہیں وہ خنجر اکثر
رت خزاؤں کی یہ ہوتی تھی بہاروں جیسی
اب گزر جاتا ہے چپ چاپ دسمبر اکثر
ایک مدت سے مِری سَمت تو آیا نہ گیا
خالی رہنے سے زمیں ہوتی ہے بنجر اکثر
تو مِری ایک ملاقات سے قائل مت ہو
دور سے گہرا نہیں لگتا سمندر اکثر
در آئی مِرے بھاگوں میں رسوائی وغیرہ
لمحہ نہ ہوئی اپنی پزیرائی وغیرہ
آنکھوں نے تِرے بعد نہ دیکھا کوئی منظر
جاتی رہی پیچھے تِرے بینائی وغیرہ
روئیں گے مِرے بعد مجھے پیڑ پرندے
مت سمجھو ستم میرے عِلاقائی وغیرہ
چاہت سے بھلا تیری طرف کون ہے آتا
لے آتی ہے سب کو تِری رعنائی وغیرہ
دنیا میں اکیلا ہوں مِرا کوئی نہیں ہے
سب رنگ و ہوس کے ہیں شیدائی وغیرہ
اِس دور میں ہر شخص ہے تنہائی کا مارا
ہوتے تھے کبھی ساتھ یہاں بھائی وغیرہ
ظالم سَمے نے گُل کیے جلتے دیے میرے
ملتی نہیں اب تیری بھی زیبائی وغیرہ

