احسان علی احسان
سوال نمبر ا-آپ کا اسم گرامی کیا ہے؟
جواب: احسان علی
سوال نمبر2- آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟
جواب:شاہکوٹ
سوال نمبر 3- آپ کی تعلیم کیا ہے ؟
جواب: ایف- اے
سوال نمبر4- آپ کو شاعری کا شوق کب ہوا؟
جواب:2016میں۔
سوال نمبر 5-شاعری میں آپ کے استاد کون ہیں؟
جواب: محترم نصرت عارفین صاحب۔
سوال نمبر 6-اپ کون سے شاعر کو پسند کرتے ہیں؟
جواب: علامہ اقبال
سوال نمبر 7۔اور کیوں پسند کرتے ہیں؟
جواب: کیونکہ ان کا کلام حقیقی اور انقلابی ہے۔
سوال نمبر 8-اپنے ہم عصر شعراء میں کون سے شاعر کو پسند کرتے ہیں؟
جواب: اظہر فراغ بھائی
سوال نمبر 9-شاعری کے علاوہ کسی اور صنف ادب پر قلم اٹھایا؟
جواب: نہیں جناب
سوال نمبر 10-اپنا پسندیدہ کلام سنائیے
جھگڑا مٹا سکے جو نبردِ حیات کا
بندہ کوئی بھی ملتا نہیں ایسی ذات کا
اے زندگی کوئی نہیں تجھ سے گلہ مجھے
پایا وہی جو لکھا تھا میری برات کا
گزری ہے میری زندگی صحرا میں دوستو
کیسے کروں میں تذکرہ نخل و نبات کا
عریاں ہیں اب بدن نہیں باقی رہی حیا
کیا خوب اٹھ رہا ہے جنازہ بنات کا
ہر شخص آقا تجھ سے شفاعت ہی مانگے گا
جب حشر میں حساب ہوا بات بات کا
محشر میں آپ ہی کا سہارا ہے یا نبیؐ
سرکار آپ ہی ہیں وسیلہ نجات کا
ہم کچی بستی والوں کو ہم کشتہ حالوں کو
تا عمر انتظار رہا معجزات کا
درماندگی نے مار دی ہیں خواہشیں سبھی
خوگر مگر یہ دل ہے مرا خواہشات کا
ہر روز ڈور ٹوٹتی ہے میری سانس کی
دھاگہ بنی ہوئی ہے یہ چرخے کی کات کا
احسان _____کون اترے گا تیرے خمیر میں
مجمع لگا ہوا ہے وہاں حادثات کا
احسان علی احسان
سوال نمبر 11-اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ بیان کریں؟
جواب: کوئی نہیں
سوال نمبر 12-کوئی ایسی شخصیت جس سے ملنے کی خواہش ہو؟
جواب: میرے استاد محترم نصرت عارفین
سوال نمبر 13۔پاکستان اور ہندوستان کے شعراءمیں کیا چیز مشترک نظر آتی ہے؟
میرے خیال میں شاعری کیفیت کا نام ہے اور کیفیت ہر دوسرے شخص کی مختلف ہوتی ہے۔شارجہ ابھی ہی اچھا لکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر 14۔آپ نے شاعری ہی کا انتخاب کیوں کیا؟
جواب:شاعری کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ مجھے اپنے جذبات اور احساسات کو زبان دینی تھی۔
سوال نمبر 15۔آپ کے خیال میں آپ کی شاعری میں کیا انفرادیت ہے؟
جواب: یہ تو قاری ہی بتا سکتا ہے۔
پھینکا بشر بہشت سے ایسے نکال کر
پانی نکالے جیسے یہ ساگر اچھال کر
تیرے ہی دم سے چلتا ہے جب قافلہ بہار
پھر ٹھہری اس چمن پہ خزاں آبسال کر
نکلا بلند حوصلہ لے کر زمین زاد
لوٹے گا اب کمند ستاروں پہ ڈال کر
اے کاروانِ زیست ٹھہر جا تو اب کہیں
میری شکستہ پائی کا کچھ تو خیال کر
جس نے نمو کا مرحلہ رکھا ہے جسم میں
لے جائے گا وہ پنچھی قفس سے نکال کر
اس بھوک نے بنایا جسے لقمہِ اجل
اس کو شکاری لے بھی گیا دانہ ڈال کر
دریا ابھی کرال تک آیا نہیں ہے ادھر
لے جاؤ اپنی بستی سے یادیں سنبھال کر
زاد و زبوں یہ شہر ہے لوگوں سے جا کہو
رکھیں ہتھیلیوں پہ کلیجے اگال کر
بادِ خزاں بھی رو پڑے آتے ہوۓ ادھر
تو گلشنِ حیات کی یوں دیکھ بھال کر
سوکھا ہوا شجر ہے مری زندگی کا یار
اپنی محبتوں سے اسے تو نہال کر
آنکھیں اٹھاکے دیکھیں یہ اہلِ سخن تجھے
احسان پیدا ایسی یہاں تو مثال کر
احسان علی احسان
بجھ جاتا ہے مگر وہ اثر چھوڑتا نہیں
دودِ _____چراغ اٹھتا ہے کشتہ چراغ سے
مہکا ہوا ہے مجھ میں جو خوشبو سا تاہنوز
وہ شخص کیسے نکلے گا میرے دماغ سے
گیسو کھلے جو تیرے تو یہ واقعہ ہوا
اڑتی رہی تھی تتلیاں بے خوف باغ سے
پھیلے ہوۓ ہے چاروں طرف درد ہائے دل
دامن بچا نہ کوئی محبت کے داغ سے
اُن نیم باز آنکھوں کی مستی نہ پوچھئے
ساقی بھی ہاتھ کھینچ لے اپنا ایاغ سے
سرکار _______ آنا آپ کا ایسا ہے دہر میں
جیسے اندھیرا چھٹتا ہے روشن چراغ سے
آنکھیں اٹھا کے دیکھیں گے اہلِ سخن مجھے
شاہین بن کے نکلوں گا نصرت کے باغ سے
احسان علی احسان
زندہ رہنے______ کے لئے یہ سلسلہ رکھا گیا
آدمی کا آدمی______ سے فاصلہ رکھا گیا
کون دے کتنا ثمر یہ . بھی نہیں دیکھا گیا
جب درختوں پے نمو کا مرحلہ رکھا گیا
تو رہا تو زندگی بھی چل رہی تھی ساتھ ساتھ
بعد تیرے پھر کہاں یہ حوصلہ رکھا گیا
آئنہ ________بھی کوستا ہے دیکھنے پر آجکل
ایسا _______میری ذات پر اک اشغلہ رکھا گیا
خوف کھاؤں مشرکینِ__ دہر سے اب کس لیے
میرے دل میں لا الا کا اسلحہ رکھا گیا
مر نہ جائیں بھوک سے بچے تڑپ کر دوستو
میرے پرکھوں کا یہ مجھ میں مسئلہ رکھا گیا
اس لیے بھی گر گئی دیوار سیدھے ہاتھ کی
رہزنوں کا میرے گھر سے راستہ رکھا گیا
ایک یہ عالَم کشندہ _______اک جہانِ باقی وہ
سامنے دونوں جہاں کا . فلسفہ رکھا گیا
میرے مولا کی شفاعت کھول دے گی در سبھی
خلد کا آسان کتنا __________ داخلہ رکھا گیا
احسان علی احسان
آج________ تو اتنا رلایا جائے
درد آنکھوں سے بہایا جائے
اک ____ تمنا اٹھی ہے سینے میں
وہ لٹا شخص کمایا جائے
بیٹھ کے حال کی گاڑی میں آج
ماضی کا پہیہ گھمایا جائے
ساقیا_____ تشنہ لبی مر رہی ہے
عشق ____ کا جام پلایا جائے
جابجا چھلکے ہے یہ بے کسّی
آنکھ سے غم نہ چھپایا جائے
نیک و بد چھوڑ دو تم محشر پر
کیا _____خبر کون جلایا جائے
موت ہو سکتی ہے واجب پر اب
ہاتھوں سے ہاتھ ملایا جائے
تیلیاں مرتی ہوئی کہہ رہی ہیں
اجڑے گلشن کو بسایا جائے
ہم سے برباد ہوۓ حالوں کو
تگنی_______ کا ناچ نچایا جائے
نوچ ڈالیں گے یہ وحشی سے لوگ
برہنہ_____ تن کو چھپایا جائے
کچلا جاتا ہے وہ بے رحمی سے
سر جو در در پہ جھکا یا جائے
زندگی تیرے تعاقب . میں اب
بسترِ _______مرگ بچھایا جائے
احسان علی۔ احسان
جب نظر تیری یار ہو جائے
پھر خزاں بھی بہار ہو جائے
جانتا ہوں کہ تو جسے چھو لے
گوہرِ___________آبدار ہو جائے
جس کو ملتا ہے پیار سے پانی
وہ شجر سایہ دار ہو جائے
کشتیاں ڈوب بھی تو سکتی ہیں
جھیل جب موج دار ہو جائے
دیکھ کر سر بریدہ مفلس کو
آنکھ ____ یہ زار زار ہو جائے
جس ندی میں تو ہاتھ ڈالتا ہے
وہ ندی بے قرار ہو جائے
ظلم ہوتا ہے پھر چراغوں پر
جب ہوا زور دار ہو جائے
سر بہ سر آؤ رفتنی لوگو
موت کا انتظار ہو جائے
جس گھڑی زلفِ یار لہرائے
یہ فضا نغمہ بار ہو جائے
نیند غالب ہو جب بھی غفلت کی
آدمی______ تار تار ہو جائے
عشق بازی کا پوچھتے کیا ہو
جیت جانے پہ ہار ہو جائے
احسان علی احسان
ظلم __اتنا ہوا بہاروں پر
تتلیاں گر پڑیں ہیں خاروں پر
کشتیاں کیا لڑیں گی دریا سے
حوصلہ ______ ہار کر کناروں پر
میں اگرچہ زمیں۔ کا باسی ہوں
پر نظر ہے مری ستاروں پر
ریل چلتی رہے گی گھڑیوں کی
آنکھ ٹھہرے گی کب نظاروں پر
مر مٹے حسنِ زن پہ جو شاہیں
کیسے ڈالے کمند تاروں پر
مر گئی ہیں محبتیں ساری
بس یہی بوجھ ہے کہاروں پر
جو نگینے تلاش کرتے ہیں
ظلم کرتے ہیں کوہساروں پر
وہ پرندہ بھی تشنگی سے مرا
جس کا مسکن تھا آبشاروں پر
صرف روٹی کے واسطے احسان
زندگی ______وار دی غباروں پر
احسان علی احسان
ہاں بعد تیرے گزرا ہم پر عذاب سا
دل بن گیا ہے میرا جل کر کباب سا
اتنی پڑیں ہیں در در سے ٹھوکریں مجھے
کانٹا بھی اب لگے ہے مجھ کو گلاب سے
کیا تک رہے ہو میرے چہرے پہ دوستو
میں اک سوال ہوں ہائے لاجواب سا
جو قید تھا پرندہ میرے قفس میں یاں
نکلا ہے ہاتھ سے وہ بن کر عقاب سا
دل چھوڑنے پے اس کو آمادہ ہی نہیں
وہ ایک شخص میرا کل اکتساب سا
یہ سوچتے ہوۓ گزریں میرے روزو شب
تم چاند جیسے ہو یا چندا جناب سا
جو اس کو تھامے ہستی اپنی سنوار لے
ساتھی نہیں کوئی بھی اچھا کتاب سا
جز بندگی کے باقی کچھ بھی نہیں رہا
اک دل تھا پاس میرے وہ بھی خراب سا
پڑنا ہے اک طمانچہ بس وقت کا تجھے
ڈھل جانا ہے یہ تیرا حسن و شباب سا
احسان علی احسان
جان بسمل کشت و خوں جب ہو گئی
زندگی پہلو میں سر رکھ رو گئی
جو پھری ہے دشت میں بے دست و پا
نیند وہ آنکھوں سے میری کھو گئی
یوں صبا نے رکھا الفت کا بھرم
دل جلا تو میلوں تک خوشبو گئی
خاک میری ہونے کو ہے در بدر
زندگی پوسہ پہ رکھ کے سو گئی
جوش اب احسان دل میں آئے نا
تھی ہوائے شوقِ دل وہ تو گئی
احسان علی احسان
لمحہ لمحہ ہستی کا آزار ہو جائے
تیرے بن یہ زندگی دشوار ہو جائے
روگ ہجرت کا اسے کھاتا ہے جڑ تک
چڑیوں سے خالی شجر جو یار ہو جائے
دیپ الفت کے جلاؤ زیرِ دامن
روشنی پھیلے سرِ____ بازار ہو جائے
وہ نکالے __ کھود کر نہرِ محبت
کوہکن کے آگے گر کہسار ہو جائے
لگنے لگتے ہیں گھڑے کچے بھی پکے
گر محبت نہر کے اس پار ہو جائے
جب نکلتا______ یار وہ سیرِ چمن کو
تتلیوں کی پھولوں سے تکرار ہو جائے
پھر بغاوت________ پر اتر آئیں بہاریں
جب خزاں کا مرحلہ دشوار ہو جائے
یار مجھ کو تو بسا لے اپنے دل میں
یار مرا بھی کوئی گھر بار ہو جائے
روگ میرے ہاتھ کی ریکھا میں ہے یہ
چھو لوں میں جس پھول کو وہ خار ہو جائے
احسان علی احسان
قیامت جو میرے سر پے کھڑی ہے
یہ تیرے دور جانے کی گھڑی ہے
سحر خیزی تھی یارو چل پڑا ہوں
مگر جانے کہاں منزل پڑی ہے
اٹھا لے . . . . ساقیا جامِ صبوحی
مجھے تو یار . .کی مستی چڑھی ہے
ترا تو مسئلہ ہے دل لگی کا
مجھے روٹی کمانے کی پڑی ہے
بہاریں ربط میں مجھ سے رہی ہیں
بدن سے پھول کی پتی جھڑی ہے
نہیں اترے گی یہ الفت کی چادر
جو شاخِ نخلِ ہستی سے اڑی ہے
ہوا احسان ___ کب اُس کا مداوا
کلی جو پورے گلشن سے لڑی ہے
احسان علی احسان
Buhatt aalaa tehrer hai..nau sukhan shuaraa ka taaruff maujoda waqt ka taqaza hai..mautera Afshan Sahar ki yea kawish qabilay sitayish hai……………….Mujeeb Quraishi..karachi….pakistan.
نہایت عمدہ و لاٸق ِ تحسین کاوش ۔ بہت بہت مبارکباد افشاں سحر ۔ ڈھیروں داد اور نیک تمناٸیں ۔
شکریہ