سوال نمبر ا-آپ کا پورا نام کیا ہے؟
ملک اکرام الحق
سوال نمبر2- آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟
میرا تعلق گجرات شہر پنجاب پاکستان سے ہے ۔ البتہ آجکل نیویارک میں مقیم ہوں ۔
سوال نمبر 3- آپ کی تعلیمی قابلیت؟
ایم فل اردو ہوں ۔۔
سوال نمبر4- آپ کو شاعری کا شوق کب ہوا؟
سکول کے زمانے سے ہی شعر کہنے کا شوق تھا ۔
سوال نمبر 5-شاعری میں آپ کے استاد کون ہیں؟
باقاعدہ استاد تو کوئی نہیں ہیں البتہ آغاز میں کچھ اساتذہ کرام نے کافی رہنمائی کی جیسے پروفیسر منیر الحق کعبی ، محترمہ نور العین عینی ، پروفیسر شیراز ساغر وغیرہ
سوال نمبر 6-کون سے شاعر کو پسند کرتے ہیں؟
مرزا غالب سے بہت متاثر ہوں ۔شرح غالب کا مطالعہ بہت ذوق و شوق سے کیا ۔
سوال نمبر 7۔اور کیوں پسند کرتے ہیں؟
میرے نزدیک اردو شاعری کی تاریخ میں مرزا غالب سے بڑا شاعر کوئی نہیں ہے ۔ اردو شاعری کو جدید رجحانات سے متعارف کروایا ۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب کی شخصیت اور فن کثیر الجہتی ہے۔ان کی انفرادیت اور عظمت اتنے پہلوؤں میں جلوہ گر ہوئی ہے کہ اس کا احاطہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ۔
سوال نمبر 8-اپنے ہم عصر شعراء میں کون سے شاعر کو پسند کرتے ہیں؟
بہت سے شاعر اور شاعرات ہیں جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں ۔ بے شمار نام ہیں ۔ ہم عصر شعرا کرام اور اس حوالے سے اردو شاعری کے مستقبل سے میں قطعی مایوس نہیں ہوں ۔
سوال نمبر 9-شاعری کے علاوہ کسی اور صنف ادب پر قلم اٹھایا؟
چند افسانے بھی تخلیق کیے ہیں اور اس حوالے سے مزید کافی کچھ لکھنے کا ارادہ بھی ہے ۔
سوال نمبر 10-اپنا پسندیدہ کلام سنائیے؟
*** غزل ***
سارے وہ گیت میرے ہی گائے گی ایک دن
چاہت کے جام مجھ کو پلائے گی ایک دن
تیرے ضمیر کو بھی جگائے گی ایک دن
جب میری یاد تم کو ستائے گی ایک دن
ایسے ستم زمیں سے بھگائے گی ایک دن
دنیا پہ حق کی دھاک بٹھائے گی ایک دن
بکھری یہاں پہ ہوگی محبت ہی چار سو
نفرت کے رنگ سارے مٹائے گی ایک دن
انصاف کی جو تم بھی نہ آواز بن سکے
خلقت زمیں پہ شور مچائے گی ایک دن
عبرت کی موت پائے گا ظالم سماج بھی
انجام ظلم کا بھی دکھائے گی ایک دن
ظلمت سے دور ہوگی یہ ساری ہی قوم حق
سب خوف اپنے دل سے گھٹائے گی ایک دن
*** ایم اکرام الحق ***
*** غزل ***
کیسی تھی تجویز کی ظالم سزا میرے لیے
اس نے دشمن کو بنایا نا خدا میرے لیے
پھر امیدیں کیا ہی کرنا کامیابی کی صنم
بن گئے جب میرے دشمن رہنما میرے لیے
جو نکلتا دم قدم تھا میری خاطر چار سو
آج آتا ہی نہیں ہے دلربا میرے لیے
اک زمانے میں تھا سارا باغ میرے ہم قدم
ہلکی ہلکی روز چلتی تھی صبا میرے لیے
میری حسرت رہ گئی جو ہاتھ اٹھتے یار کے
کاش کرتا میرا دلبر بھی دعا میرے لیے
ابتدا سے انتہا تک ساتھ ہوتے دم بدم
میرا ہمدم گر لگاتا اک صدا میرے لیے
میری حیرت انتہا کی تب حدیں تھی چھو رہی
جب کبھی وہ حق میں بولا برملا میرے لیے
*** ایم اکرام الحق ***
*** غزل ***
جن کے خوابوں میں خیالات سفر آتے ہیں
ان کو بیٹھے ہوئے بیکار نظر آتے ہیں
شب کے دلدوز اندھیرے نہ بگاڑیں کچھ بھی
راہ الفت میں بھی اوقات سحر آتے ہیں
ہم نے مشکل میں بھی چھوڑا نہیں رستہ اپنا
گرچہ دشمن کے بھی راہوں میں نگر آتے ہیں
درد دل ہم سے اگر جان ہماری مانگے
دل لگانے کے خیالات مگر آتے ہیں
ان کے ہاتھوں کی لکیروں میں سیاست ہوگی
چھوڑ جانے کے جنہیں خاص ہنر آتے ہیں
ایسی مشکل کہ وہاں سانس اٹک جاتی ہے
ایسے ظالم سے مقامات دہر آتے ہیں
ان پہ دلسوز سی وحشت کا سماں ہوگا حق
دل کے حالات کے جو زیر اثر آتے ہیں
*** ایم اکرام الحق ***
سوال نمبر 11-اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ بیان کریں؟
زندگی تو دلچسپ واقعات سے عبارت ہوتی ہے۔ بہت سے ایسے لوگوں کے حوالے سے بےشمار باتیں ہیں جو زندگی کو یادگار بنا دیتی ہیں ۔
سوال نمبر 12-کوئی ایسی شخصیت جس سے ملنے کی خواہش ہو؟
ملائیشیا کے عظیم رہنما مہاتیر محمد اور ترکش اداکارہ بیرن ساعت سے ملاقات کی خواہش ہے ۔
سوال نمبر 13۔پاکستان اور ہندوستان کے شعراءمیں کیا چیز مشترک نظر آتی ہے؟
میری نظر میں تو شاعری اور ادب حدود قیود کا پابند نہیں ہوتا اور اردو شاعری کے حوالے سے تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی لکھا جا رہا ہے معمولی سے ثقافت و معاشرت کے رجحانات کے علاوہ زیادہ تر ایک جیسا ہی ہے ۔
سوال نمبر 14۔آپ نے شاعری ہی کا انتخاب کیوں کیا؟
شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے ۔ ویسے تو ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے ۔ شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار اس میڈیم سے کرتے چلے آ رہے ہیں ۔
سوال نمبر 15۔آپ کے خیال میں آپ کی شاعری میں کیا انفرادیت ہے؟
اس کا فیصلہ میں نہیں آنے والا وقت ، ناقدین اور مورخین کریں گے ۔ اس حوالے سے اپنے منہ میاں مٹھو بننا ضروری نہیں ہے ۔
سوال۔16۔آپ کی تربیت میں سب سے زیادہ کس کا ہاتھ ہے ؟
جواب ۔۔۔۔۔ مجھ پر میرے والد صاحب کی شخصیت کے اثرات بہت زیادہ ہیں ۔ میری تربیت اور علم و ادب کی راہوں کا مسافر بننے کے سفر میں ان کا ہاتھ بہت زیادہ رہا ہے ۔ میں اس وقت 10 کلاس میں تھا جب میرے والد صاحب اللہ کو پیارے ہوئے لیکن جتنا عرصہ بھی میری زندگی کا ان کے ساتھ گزرا انہوں نے میری بہت زیادہ رہنمائی کی ۔ زندگی میں کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور ہمیشہ مجھے مطالعہ کی اہمیت کا احساس دلایا کرتے تھے ۔ بچپن میں ہی مجھے رسائل و جرائد اور کتب کی طرف رغبت دلائی ۔ ان کی یہ تربیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے میرا رجحان ہم نصابی سرگرمیوں کی طرف بھی بہت رہا ۔ مجھے کرکٹ کا بہت شوق رہا اور گجرات میں کافی کرکٹ کھیلی بھی لیکن صرف یہی نہیں بلکہ میں نے ساتھ ساتھ کرکٹ کے رسائل و جرائد کو بھی شوق مطالعہ بنا لیا اور ان میں کبھی کبھی کرکٹ کے حوالے سے لکھتا بھی رہا ۔
سوال17 – اپنے اساتذہ کرام میں کس سے سب سے زیادہ اثرات لیے ؟
جواب ۔۔۔ سر افتخار احمد ۔۔۔ سر افتخار میرے جماعت ہفتم اور ہشتم کے کلاس انچارج ہوا کرتے تھے ۔ وہ بہت اچھی اور متوازن شخصیت کے مالک انسان تھے ۔ ان سے ہماری تمام کلاس نے بہت کچھ سیکھا ساری کلاس ان کی بہت زیادہ عزت کرتی تھی وہ ناصرف ایک بہت اچھے استاد بلکہ ایک بہت اچھے اور نیک انسان بھی تھے ۔ افسوس کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں ۔
سوال 18- آپ نے اخبارات کے لیے کچھ لکھا؟
جواب۔۔۔مقامی اخبارات میں میرے مضامین اور کالم بھی شائع ہوئے اور ایک مختصر مدت کے لیے روزنامہ خبریں کے ساتھ بھی وابستہ رہا ۔
pakurdublog2020.com
ماشاءاللہ
جزاک اللّٰه
ماشاءاللہ