پاکستان کا چوہترواں جشن آزادی
میراوطن میرافخر
تحریر افشاں سحر
مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ وطن میری شناخت، میری پہچان ہے اور دنیا بھر میں میرا مان بھی۔ اس لفظ “پاکستانی” سے میرا وہ رشتہ ہے جو کسی تتلی کا پروں سے، پنچھی کا اڑان سے، اور کسی شخص کا اپنے نام سے ہوتا ہے۔
یہ شناخت میرے آباء نے بڑی تگ و دو، جدوجہد، اور قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے اور اب اسے برقرار رکھنا اور اس پر فخر کرنا میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اپنے آباء کے چھوڑے ہوئے ترکے اور وراثت پر اپنا حق سمجھنا۔ اور صرف میرا ہی کیوں، یہ تو ہر اس شخص کا حق ہے جو اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوا ہے، اور اپنے ساتھ یہ پہچان رکھتا ہے۔
گذشتہ 74 سالوں میں اس ملک میں جو نسلیں پیدا اور جوان ہوئی ہیں، ان کی سوچ، سمجھ اور خیالات میں بتدریج کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں یقیناً بڑی حد تک پاکستان کے حالات، مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات، سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل و صورتحال اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور روز مرّہ مسائل کا بڑی حد تک عمل دخل ہے۔
آج کی نسل پاکستان سے محبّت تو ضرور کرتی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ان کے خون اور گھٹّی میں شامل ہے لیکن محبّت کا وہ جنون اور عشق جو دیوانگی کی حد تک ہمیں اپنے سے پچھلی نسل میں نظر آتا تھا، آج مفقود ہے
کسی سیانے کا قول ہے کہ محبّت قربانی مانگتی ہے، عشق صلے سے بے پرواہ ہوتا ہے، اور پیار دینے اور دیے جانے کا نام ہے۔ اور اگر اس پہلو سے پرکھا جائے تو سب سے پہلے جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟؟؟؟؟
جب ہجرت ہوئی تو یہاں کچھ نہیں تھا، پہننے کو کپڑے نہیں تھے کھانے کی چیزیں نہیں تھیں، بیمار ہو جائیں تو ڈاکٹرز اور ہسپتال نہیں تھے، سفر کرنے کی سہولیات نہیں تھی، روشنی کا انتظام نہیں تھا، تعلیم کے ذرائع نہایت محدود تھے، آگے بڑھنے اور صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع نہیں تھے، غربت اور بھوک تھی، سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ ہمارے بزرگ بے سروسامانی کے عالم میں یہاں آئے تھے اس ملک نے ہماری نگہداشت کی، نشوونما کی، دیکھ بھال کی، سر چھپانے کو جگہ دی۔ اس ملک نے ہمیں ترقی کرنے مواقع فراہم کیے، ہم پیدل تھے سائیکل پر آ گئے، سائیکل سے موٹر سائیکل اور پھر گاڑی پر آئے، پھر چھوٹی گاڑی سے بڑی گاڑی تک کا سفر طے کیا، ہم ہوائی جہازوں میں سفر کرنے لگے، ہم لگژری گاڑیوں میں گھومنے لگے، ہمارے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تھی ہم کچے مٹی کے گھر بناتے بناتے چھوٹے چھوٹے گھروں سے بڑے گھروں اور پھر بنگلوں تک جا پہنچے، ہم ایک سے زیادہ گھروں کے مالک بن گئے، پھر ہمارے گھروں میں دنیا کی تمام سہولتیں آئیں، ہم کھیتوں والے فارم ہاؤس بنانے لگے، ہم موم بتیاں جلاتے جلاتے ترقی کرتے کرتے مہنگی مہنگی اور امپورٹڈ لائٹس کے قابل ہو گئے، ہمارے شہر پھیلتے گئے، سڑکیں بنتی گئیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہر گذرتے دن کے ساتھ آسان ہوتا گیا، کبھی پورے شہر میں ایک دو ڈاکٹر ہوتے تھے اب ہر گلی میں ایک کلینک اور جگہ جگہ ہسپتال نظر آتے ہیں، کبھی ایک سرکاری سکول بڑے علاقے کے لیے ہوتا تھا اب درجنوں تعلیمی ادارے علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، کالجز اور یونیورسٹیز میں نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
آج یوم آزادی ہی نہیں یوم احتساب ہونا چاہیے، ذاتی احتساب جس کے لیے کسی نیب کی ضرورت نہیں۔ اس احتساب کے لیے احساس اور ضمیر کی ضرورت ہے۔ ہم اپنا احتساب کریں کہ دھرتی ماں سے ہم نے کیا کچھ لیا اور اس دھرتی ماں کو ہم نے کیا دیا ہے۔ کیا ہم نے دھرتی کا قرض اتارا ہے۔ کیا ہم نے دھرتی ماں سے کیا وعدہ نبھایا ہے۔ ملک نے ہمیں سب کچھ دیا اس کے جواب میں ہم نے ملک کو کیا دیا ہے۔ہم نے اس ملک کو دو ٹکڑے کیا، بزرگوں کی امانت کو تیس سال بھی نہ سنبھال سکے، اس میں دہشت گردی کے بیج بوئے، اس زمین میں ناانصافی کو عام کیا، رشتوں کا خون کیا، انسانوں کو جانوروں کا گوشت کھلایا، اس زمین نے دیکھا ہے کہ ہم نے کیسے رشتوں کے تقدس کو پامال کیا ہے، اس زمین نے ہمیشہ برداشت کیا لیکن ہم نے عدم برداشت کو فروغ دیا، اس زمین نے ہماری غربت ختم کی لیکن ہم نے غریبوں کے حقوق پر ڈاکے مارے، اس زمین نے ہمیں گلے سے لگایا، اس زمین نے دیکھا کہ ہم نے اپنوں کے گلے کاٹے، اس زمین نے چھت فراہم کی اور ہم نے لوگوں کی چھت چھین کر دھرتی ماں سے غداری کی۔ اس زمین نے ہمیں امن کا سبق دیا جبکہ ہم نے اس زمین کو قتل و غارتگری دی، ملک میں انصاف کا گلا گھونٹا، میرٹ کا قتل عام کیا، اس ملک نے ہمیں مذہبی آزادی دی اور ہم یہاں مذہب کے نام پر خطرناک حد تک تقسیم ہوئے۔ اس زمین نے ہمیں تحمل کا سبق دیا لیکن جواب میں ہم شدت پسندی کو فروغ دیا۔
ہجرت کے وقت ملک نے ہمیں سنبھالا تھا ہم سب مل کر بھی اپنے ملک کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ ہمارے بزرگوں نے الگ وطن کیوں حاصل کیا تھا یہ ہر بچے کو یاد ہونا چاہیے، اس بارے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، اس بارے دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں ایک قوم بننے کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ہو گا۔ ہمیں اس عظیم ملک کی خدمت کے جذبے کو ابھارنا ہو گا”۔
اس یوم آزادی پر ہم یہ عہد کریں کہ دو قومی نظریے کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ آج ہمیں شکرانے کے نوافل ادا کرنے چاہئیں۔ اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے۔ ہماری آنے والی نسلوں کو اسلام اور پاکستان کی ترقی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
ہمارا وطن ہماری آن بان شان ہے ہمارا فخر ہے
پاکستان پائندہ باد
