پہلی اڑان
تحریر توقیر بھملہ
انتخاب و پیشکش افشاں سحر
عصر کے بعد بیٹیوں کو ساتھ لیکر باغیچے میں جانے کا سوچا، جیسے ہی عقبی دروازہ کھولا تو دیکھا نیم کا درخت چڑیوں کے شور سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، بے شمار چڑیاں باغیچے کے اندر ایک درخت سے دوسرے درخت پر لپکتی تھیں تو کچھ زمین پر بیٹھ کر پر پھیلائے شور مچاتی تھیں، سوچا ایسا آج ان کے ساتھ کیا ہے جو ان چڑی ذاتوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے، کبھی کبھی بلی یا سانپ کو دیکھ کر بھی پرندے شور مچاتے ہیں، لیکن یہاں سانپ کے آنے کا تو سوال نہیں تھا اور بلیاں بڑی فرینڈلی سی ہیں ان سے چڑیاں ڈرتی بھی نہیں تو پھر کیا ہوسکتا ہے، سوچتے ہوئے نیم کے دراز قامت شجر کے نیچے کھڑا ہوکر اوپر دیکھنے لگا، گھنے سر سبز پتوں سے سورج کی روشنی بمشکل چھن کر آرہی تھی، اچانک چڑیوں کا شور بلند ہوا اور ایک ننھی چڑیا درخت کے اوپر سے ادھ کھلے پروں کے ساتھ دائروں میں گھومتی ہوئی یوں نیچے آرہی تھی جسے کسی ماہر نشانہ باز نے ہوائی جہاز کو مار گرایا ہو دیکھتے ہی دیکھتے ننھی جان زمین کے بالکل قریب تھی اور مجھے یوں لگا جیسے کسی بے رحم نے اسے مرنے کے لیے اوپر سے گرا دیا ہے کیونکہ نہ تو اس کے پر کُھل رہے تھے اور نہ وہ بچنے کی کوشش کررہی تھی یا پھر شاید اسے اپنے وجود میں حیات کی رمق کا اندازہ نہیں تھا، طاقتِ پرواز سے بے خبر تھی یا پھر پروں کے استعمال سے ناواقف تھی، قریب تھا کہ وہ زمین سے ٹکراتی اور مٹی کا رزق ہوجاتی اس نے اچانک پروں کو پورا کھولا اور لہراتے ہوئے ماہر ہوا باز کی طرح زمین پر چھوٹے چھوٹے پنجے رکھ دیے، اور فاتحانہ سر اٹھا کر اوپر دیکھنے لگی ، جب وہ زمین کی طرف بے جان سی گر رہی تھی تو یوں جیسے کائنات کا پہیہ جام کردیا گیا ہو، میرا اپنا دل مٹھی میں تھا، گہرا سکوت، چڑیوں کو چہچہانا بھول گیا تھا، پھر جیسے ہی زمین پر گری جان نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو چڑیوں کا شور اور جوش پہلے سے بڑھ کر تھا۔
میں نے حیرانی سے آگے بڑھ کر اس ننھی جان کو اٹھا کر دیکھا کہ کہیں زخمی تو نہیں، تو وہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ تھی، گرم بدن اور ننھے دل کی بے انتہا تیز بے ترتیب دھڑکن میرے ہاتھ میں یوں پھیل اور سمٹ رہی تھی جیسے جھیل کے پرسکون پانی میں پتھر گرنے سے بننے والے دائرے ہوں، کئی سوال میرے ذہن میں ابھر رہے تھے کہ اس چڑیا کے تو دو ہی رشتہ دار ہوں گے، اس کے ماں باپ کے علاوہ باقی چڑیوں کے ڈار اس کے کیا لگتے ہوں گے، اور وہ کیوں اس کی پہلی اڑان کو کامیاب دیکھنے کے لیے بے چین تھے، اس کی پہلی اڑان سے پہلے ان کا چہچہانا کیا کوئی جشن تھا، اس کا گرنے کے دوران چہچہاہٹ کا تھمنا اور درخت کے اوپر سے بے چین جھانکتی بے شمار ننھی آنکھیں کیوں پریشان اور متجسس تھیں، آسمان سے زمین پر گرنے کے بعد جب شجر پر منتظر چڑیوں کو یقین ہوگیا کہ وہ زندہ ہے اور دھڑک دھڑک کر زمین کو اپنی کامیابی کی گونج سنا رہی تھی، تو لپک لپک پر کھولے خوشی سے اس کے ارد گرد چڑیوں نے گھیرا بنا لیا اور یوں جیسے اسے مبارک باد دے رہی ہوں اور بتا رہی ہوں کہ گھونسلے سے گر کر پہلی اڑان کے بعد تمھارے ننھے وجود اور پروں کو تقویت ملی ہے، تم نے ہوا کو تسخیر کرنا سیکھ لیا ہے، تمھیں اپنے پروں اور پھر ان پروں کی طاقت پرواز کا احساس ہوا ہے، زندہ رہنا ہے تو ہردم پروں کو کھولے محو پرواز رکھنا ہے وگرنہ بلندیوں اور پستیوں میں موت کے سوا کوئی چارہ ساز نہیں، جو پر کھولے کوشش کرتا ہے کائنات مل کر اسے کامیاب کرنے کے درپے ہوتی ہے، بے شمار مخلوق اس سے کئی گنا بڑے پروں کے باوجود اڑنے کے فن سے ناآشنا ہے، اڑنے کی بجائے کسی اور کی طرف حسرت سے تکتی ہے اور چند دانوں اور چونچ بھر پانی کی خاطر اپنے پر گروی رکھ دیتی ہے.. وہ جسے صبح اسکی ماں نے اپنے مقدر کے رزق میں سے الگ کر کے چونچ میں چوگ کھلائی تھی اس ماں کا کلیجہ کیسے مان گیا کہ اسی دوپہر اسے گھونسلے سے گرا کر اڑنا سکھا دیا. ممتا نے آشیانے میں چوگ کھانے کی بجائے لڑ کر جینے کو ترجیح دی۔
چڑیاں آسمان کے نیچے شاید وہ واحد مخلوق ہیں جن کا ہر کوئی دشمن ہے، ہر کوئی ان کی تاک میں رہتا ہے، پورے زمانے کے دشمنی میں ایک نئے جنمے وجود سے وہ پیغام دے رہی تھی کہ ہم اپنی نسل کشی کے باوجود مایوس نہیں ہیں ہم نے پروں کی بجائے حوصلے سے اڑنا سیکھا ہے، ہم اپنی جنس کی اڑان سے حسد نہیں رکھتیں، بلکہ آگے بڑھ کر اسے کائنات تسخیر کرنا سکھاتی ہیں۔
آج عصر کے وقت کا مشاہدہ 07/05/21
توقیر بُھملہ
