کچھ تو ہوا سرد تھی،پروین شاکر

پروین شاکر کچھ تو ہوا سرد تھی

تزئین و آرائش اور انتخاب:افشاں سحر

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی 💜

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی 💜

بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی 💜

چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی 💜

سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا 💜

ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی 💜

دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں 💜

شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی 💜

اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا 💜

اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی 💜

میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر 💜

ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی 💜

اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں 💜

اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی 💜

گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب 💜

اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی 💜

اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے 💜

جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی 💜

شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا 💜

موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی💜
اردو ادب،اردوزبان،نثر،شاعری، اردو آرٹیکلز،افسانے،نوجوان شعراء کا تعارف و کلام،اردو نوٹس،اردو لیکچرر ٹیسٹ سوالات،حکایات

اپنا تبصرہ بھیجیں