ہاتھ
صبح کے تقریبا آٹھ بج رہے تھے،موسم کافی خوش گوار تھا،ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی، بھینی بھینی خوشبو سے ہوا معطر تھی۔میں حسب معمول ہسپتال جانے کو گھر سے نکلی،باہر گاڑی انتظار میں تھی جو کہ میرے بیٹھتے ہی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔نہ جانے کن خیالات میں گم باہر کے نظارے سے لطف اندوز ہورہی تھی کہ اچانک ڈاکٹر ادیبہ پر نظرپڑ گئی،شاید کسی سواری کے انتظار میں تھی،میرے کہنے پر ساتھ چلنے پر آمادہ ہوتے ہوئے برابر میں بیٹھ گئی۔گاڑی ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف برقی رفتار سے رواں دواں تھی،ہم میں رسمی علیک سلیک ہونے کے بعد خلاف معمول خاموشی چھا گئی،بڑی عجیب سی خاموشی،میں ایک اچٹتی سی نظر ادیبہ کے چہرے پر ڈالی۔پتہ نہیں کیا تھا اس وقت اس کے چہرے پر کہ میں دوبارہ دیکھنے اور پوچھنے پر مجبور ہوگئی کہ سب ٹھیک توہے۔دراصل ادیبہ کافی خوش مزاج،ہنس مکھ اور زندہ دل شخصیت کی مالک ہے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس سے قبل کبھی ایک ساتھ اتنا لمبا وقت ہم نے خاموش رہ کر گزارا ہو،میرے سوال پر اس نے ہوں کیا،اور ایک سرد آہ بھری،جو یہ یقین دلانے کو کافی تھا کہ واقعی سب کچھ تو ٹھیک نہیں ہے۔کچھ دیر کی پریشان کن خاموشی کے بعد پھر میں نے بات شروع کی،کافی اچھا موسم ہے نا!ہم وقت سے پہلے بھی پہنچ جائیں گے چل کر رحیم چاچا کی چائے پیتے ہیں۔جب ہم نئے نئے آئے تھے کتنا جایا کرتے تھے نا ادھر،اب جب سے یہ نئی کینٹین کھلی ہے جا ہی نہیں پاتے،آج چلتے ہیں کچھ لیٹ ہی ہو جائیں تو دقت نہیں ہے،کبھی کبھی تو ہونا بھی چاہئے……………………….. پتہ نہیں میں نان اسٹاپ کیا کیا بولے جارہی تھی،اسی درمیان گاڑی اپنی مخصوص مقام پر رکی اور ادیبہ مجھے کچھ کام ہے!کہتی ہوئی چلی بھی گئی،میں ایک منٹ ششد رہ گئی،پہلی بار میں نے ہمیشہ ہشاش بشاش رہنے والی ادیبہ کا یہ روپ دیکھا تھا۔میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کسی بات پر موڈ خراب ہو،انسان ہی تو ہے۔ ہمیشہ ایک سی حالت میں ہونا ابنارمل بات ہے، سوچتے ہوئے کمرہ تک آگئی اور پھر کام کا سلسلہ شروع ہوگیا میراجی کے لفظوں میں
جوں توں رستہ کٹ جاتا ہے اور بندی خانہ آتا ہے
چل کام میں اپنے دل کو لگا یوں کوئی مجھے سمجھاتا ہے
میں دھیرے دھیرے دفتر میں اپنے دل کو لے جاتا ہوں
نادان ہے دل مورکھ بچہ اک اور طرح دے جاتا ہوں
پھر کام کا دریا بہتا ہے اور ہوش مجھے کب رہتا ہے
انہی لا ئن کو گنگناتے ہوئے سامان سمیٹتے ہوئے لنچ کے لئے نکلنے کی تیاری میں تھی،اشعار گنگنانا میری عادت ہے، شعرو شاعری کا ماحول چونکہ گھر میں ہی بچپن سے ملا اس لئے میدان جدا ہونے کے باوجود ادب اور شاعری سے خاص لگاؤ رہا ہے،کالج میں اکثر مواقع بھی ملتے رہے جس نے اس شوق کو مزید فروغ دیا،دوستوں کو سمجھ نہیں آتی تھی اس کے باوجود بیٹھ کر گھنٹوں سنتے، اپنی ادب فہمی اور سخن سناشی کا ثبوت واہ واہ کرکے دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑٹتے،یہی نہیں بلکہ چلا چلا کر ڈیسک پر ہاتھ مار مار کر ایک دو رسمی رٹے رٹائے جملے بول کر خود کو بڑا سخن شناس ثابت کرتے،اسی سخن شناسی کے چکر میں کئی بار بڑی ذلت بھی اٹھانی پڑی،خیر تو میں بتا رہی تھی کہ میں لنچ کے لئے ادیبہ کی طرف نکلی،ہم نے یہاں ساتھ میں جوائن کیا تھا،جب سے ہی ساتھ ساتھ ہی زیادہ تر کام کرتے،ادیبہ سے تقریبا تمام لوگوں کی بنتی تھی،سب سے مل جل کر رہنا،ہر وقت خوش رہنا، بات بات پر لطیفہ سنانااور کسی کو بھی اپنا گرویدہ بنا لینا اس کے خمیر میں شامل تھا،یہی وجہ ہے کہ یہاں آکرہم دونوں کو کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا،سینئر، جونیئر یہاں تک کہ مالی،گارڈ،کینٹن کے لوگ اور دوسرے تمام اسٹاف سے بھی اچھی خاصی جان پہچان ہوگئی، میں اس کے روم میں داخل ہوتے وقت صبح کی باتیں بھول چکی تھی،امید تھی کہ ہمیشہ کی ہنستی کھلکھلاتی کہے گی لگ گئی تمہیں بھوک،آگئی میرا دماغ کھانے،اس مصیبت سے کب جان چھوٹے گی وغیرہ وغیرہ لیکن معاملہ برعکس تھا،کرسی پر پشت مری جانب کئے پتہ نہیں اس کا دماغ کن سوچوں کی آما جگاہ بنا ہوا تھا کہ مری آہٹ سے بے خبر کرسی پر پیر ہلاتی مگن تھی،میں نے کچھ توقف کے بعد آواز دی،پھر دوسری اور تیسری آخر کار میں نے کرسی کی پشت اپنی طرف گھماتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا،بولی ہاں بولو،میں نے کہا: کیا بولنا ہے؟کہاں گم ہو،کچھ بتا نہیں رہی،میں نے بھی اب ناراض ہوجاناہے،اس نے کہا کچھ نہیں کافی لمبی بات ہے،آرام سے بتاؤں گی،تمہیں بھوک لگ رہی ہوگی کچھ کھا لیتے ہیں۔میں نے بولا میں لے آئی ہوں ادھر ہی،تم بتاؤ آج مری طرف خالی ہی ہے اور ادھر بھی،آرام سے بات ہوسکتی ہے۔اس نے بتانا شروع کیا:
تم میری دوست نائلہ کو جانتی ہو نا،چوہدری انکل کی بیٹی،کچھ دن پہلے میں ان کے گھر گئی تھی۔ ابھی پچھلے مہینے اس کی بہن کی شادی ہوئی ہے اس کی شادی کی البم بن کر آئی تھی،اس نے بلایا تھا کہ کسی دن ادھر چکر لگاؤں،کہ رہی تھی کہ تمہاری تصویریں ذبردست آئی ہیں،دیکھ کر دل خوش ہوجائیگا۔مجھے بھی کافی دن ہوگئے تھے،جب سے ٹائمنگ بدلی ہے اپنی، بس گھر سے یہاں اور یہاں سے گھر،ایک دن میں یہاں سے واپسی میں ادھر ہی چلی گئی۔اس دن دروازہ کھولنے ایک بچہ آیا،جس کو میں پہلی بار وہاں دیکھ رہی تھی،عمر تقریبا بارہ سال رہی ہوگی،جھٹ سے دروازہ کھول کر کہا سلام باجی اور دوڑتے ہوئے اندر گیا آواز لگانے نائلہ باجی آپ کی دوست آگیئں،مجھے حیرت بھی ہوئی کہ فورا پہچان گیا،کافی ذہین،تیز،پھرتیلا بچہ تھا،غالبا نائلہ سے سنا ہوگا اور اندازہ لگا لیا،میں پھولوں کی کیاریاں دیکھنے لگی،بڑی نکھری نکھری تھیں،پہلے سے زیادہ سلیقے سے،لگتا تھا کافی محنت کی گئی ہے،جبھی نائلہ آگئی وہی اس کی شکایتیں،خفگی کا اظہار اور پھر باتیں شروع ہو گئیں،اس بیچ میں وہ بچہ دوڑ دوڑ کر ناشتے کی ایک ایک پلیٹ لانے لگا،ایک ساتھ ٹرے شاید اس سے سنبھلتی نہیں۔میں نے نائلہ سے پوچھا بچہ کون ہے؟اس نے بتایا کہ ایک جاننے والے نے رکھوایا ہے بیچارہ بہت غریب ہے،یہاں چھٹے معٹے کام کرلے گا،برابر اسکول میں پڑھ بھی لے گا،تم یہ بتاؤتم نے وہ جو میرے ساتھ جاکر لیمن کلر کا سوٹ لیا تھا پہنا،کتنا زبردست تھا،کاش مجھے بھی اس کا اورنج کلر مل جاتا،لیمن تم پر جچتا بھی ہے،مرے پر نہیں جاتا اور ایک دو لیمن ہیں بھی اس لئے چھوڑ دیاورنہ میں ہی لے لیتی۔ویسے بھی آج کل میرا لکی کلر اورنج ہے،نائلہ کی باتیں سنتے سنتے میں اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی جو اب بڑی تن دہی سے فرش دھونے میں مگن تھا،اس کے کچھ دیر بعد میں وہاں سے نکل آئی۔اس کے بعد ایک دو بار وہاں جانا ہوا،وہ بچہ اپنی معصومانہ کھلکھلاہٹ سے میرا ستقبال کرتا،ویسے ہی دوڑتا ہوا آواز لگاتا نائلہ باجی آپ کی دوست آگئیں،بس فرق یہ آیا کہ اب وہ ایک ساتھ پوری ٹرے سنبھال لیتاتھا،ایک ایک پلیٹ الگ الگ لاکر رکھنے کی بجائے ٹرے لانے کی مشق ہوگئی تھی،کچن چمکنے لگا تھا،پھولوں کی کیاریاں اور خوبصورت لگ رہی تھیں،بڑی پھرتی تھی،بوٹی بوٹی تھرکتی تھی،مشکل سے تین ہاتھ کا قد،بھو رارنگ اور بھورے بھورے بال،پتلا دبلا سا بچہ،اتنی پھرتی اور اتنی تیزی کہ پل میں یہاں پل میں وہاں،ہر وقت ہنستا کھیلتا اور مزے سے گنگناتا ہوا،دل خوش ہوجاتا اس کو دیکھ کر،چھوٹو کہ کر سب پکارتے تھے،چھوٹواب بازار سے سامان بھی لانے لگا تھا،کبھی کبھی دوکاندار سے کیا کہتاکہ وہ اس کو کچھ رعایت بھی دیدیتاپھر وہ دکھاتا پھرتا،اور اپنی تعریفیں کرواتا۔اس کے کام سے خوش ہو کر نائلہ کی ممی نے اس کو اپنا پرانا فون دیدیا،جس میں سم نہیں تھی،شروع شروع وہ اسی بات سے خوش تھا کہ اس کے پاس ایک بڑا سا فون ہے،دھیرے دھیرے کچھ کچھ چلانا بھی سیکھ گیا جس پر اسے بڑا ناز تھا،سب کو بتاتا رہتا،اس کو ٹچ کرنے سے ویڈیو چل جاتی ہے،یوں اس کو فل اسکرین کر لیتے ہیں،اس طرح آواز بڑھتی کم ہوتی ہے وغیرہ غیرہ،پھر اس کا معمول بن گیا روز ایک فلم دیکھتا،کامیڈی فلم دیکھتا رہتا خوب زور زور سے ہنستا رہتا،پھر پورے دن اسی کیفیت میں رہتا،یہی مشغلہ تھا اس کا اوریہی کل کائنات تھی،کچھ نئے کپڑے بھی بن گئے تھے،کچھ پیسے بھی مہینے کے علاوہ مل جاتے جو کوئی کوئی جاتے وقت دیدیتاتھا اسی ڈگر پر زندگی چل نکلی تھی۔
پھر میں کافی لمبے عرصے تک نہیں جاپائی،کچھ دن پہلے جب میں آخری بار گئی ہوں تو کافی کچھ بدلا بدلا سا لگا،حیرت چھوٹو کو دیکھ کر ہوئی،نہ وہ چھوٹو تھا رہا نہ اس کی وہ شوخیاں،نہ وہ چستی پھرتی،ایک اداس مضمحل سا کوئی بچہ تھا جس کو میں نے پہلے نہیں دیکھا،ہاتھ میں پٹی بندھی پوچھنے پر پتہ لگابلیڈ سے ہاتھ کٹ گیا ہے،مجھے لگا اسی لئے اداس ہے،طبیعت ٹھیک ہوجائے گی،تو پھر سب ویسا ہی ہو جائیگا،جب دوسری بار میں گئی تو اور کمزور سا دکھا،چہرے پر افسردگی و مردنی چھائی ہوئی اور ہاتھ میں پٹی،میں نے پوچھا کہ اب تک ٹھیک نہیں ہوا اب تو کا فی وقت ہوگیا،یہی کہہ رہی تھی کہ نائلہ کی ممی آواز آئی: رحیمن بوا سے کہو کہ برتن پڑے ہیں اسے دھو لیں،چھوٹو کا ہاتھ کٹ گیاہے،اچانک چھوٹو کے چہرے پر ایک خوشی سی آئی اور گئی،پھر جیسے اس کا یہ معمول بن گیا ہوجیسے،بس برتنوں سے نپٹنے کا ایک یہی بہانا اس کی نظر میں تھا،ایک معصوم ذہن آخر کتنا اور کہاں تک سوچ سکتا تھا؟؟؟تیسری بار جب اس نے ایسا کیا تودھار تیز تھی،نازک انگلی میں دور تک چلی گئی،بھاگا بھاگا نائلہ کے پاس گیا نائلہ نے پٹی کردی،خون رکتا نہ تھا، نائلہ کی ممی نے غصے میں کہا کہ دفع ہوجاؤ یہاں سے،آئندہ میں تمہاری شکل بھی نہ دیکھوں،کہہ کر کمرے میں گئیں وہ اپنا سامان لیکر نکل پڑا،اس بار زخم گہرا تھا،خون کافی نکل چکا تھا،کاغذ کی طرح رنگ سفید ہوچکا تھا،زخم خطرناک صورت اختیار کر گیاتھا پتہ نہیں کیسے وہ اس ہسپتال تک پہنچا،میں نے اس کو اس حال میں دیکھا کہ زہر کے پھیلنے کے ڈر سے اس کے دونوں معصوم پتلی پتلی پھول کی ٹہنیوں جیسے ہاتھ ہمیشہ کے لئے کاٹ دئے گئے تھے۔شاید ان کی قسمت میں مضبوط شاخ کی صورت اختیار کرنا نہ تھا۔
شام کے چار بج چکے تھے،گاڑی انتظارمیں تھی،پتہ نہیں آج قدم اتنے بھاری کیوں تھے؟ ہم نے اتنی خاموشی سے گاڑی تک پہنچے کہ رستے بھی لاعلم رہ گئے،پھر گاڑی اسی برق رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی،باہر کی ساری فضا سوگوار ہو رہی تھی،ہلکی ہلکی پھوار کی شکل میں پھول جیسے ہاتھ پر آنسو بہا رہی تھی۔