اردو ادب
سولہ اگست 2021بابائے اردو مولوی
عبدالحق کایوم وفات
کسی بھی ملک کی شناخت اس کے علمی و ادبی سرمائے اور تہذیب و ثقافت سے ہوتی ہے قومی تشخص کے لئے اپنی زبان کا ہونا لازم ہے ہے اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے والے محسنین میں جو نام سر فہرست ہے وہ مولوی عبدالحق کا ہے وہ ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل اور آہنی ارادوں والے شخص تھے وہ محققانہ ذہن رکھتے تھے اور ان کا طرز عمل ہمیشہ جراتمندانہ رہا اردو کے تحفظ کے حوالے سے تحریک ہندوستان سے ہی شروع ہو چکی تھی اردو ہندی تنازعہ پر بھی مولوی صاحب نے بہت دلیری اور بے باکی سے اپنا موقف بیان کیا متحدہ ہندوستان میں بھی رابطے کے لئے سب سے بڑی زبان اردو ہی تھی اردو ہندوستان میں کوئی نئی زبان نہیں تھی بلکہ اس کا آغاز تیرھویں صدی سے ہو چکا تھا۔مولوی صاحب اسی زبان کے حق میں تمام زندگی آواز اٹھاتے رہے اس کے علمی و ادبی اعزاز اثاثوں میں اضافہ کرتے رہے وہ خود ماہر لسانیات سیرت نگار تنقید نگار خاکہ نویس اور صحافی بھی تھے ان کا سب سے سستا منتقلی ہے انجمن ترقی اردو کے کتب خانے میں علوم و فنون کے ایسے نادر و نایاب نسخے موجود ہیں جن سے تشنگان علم فیض اٹھا سکتے ہیں چاہے وہ محقق ادیب شاعر ہو یا ماہر لسانیات یہاں ہر موضوع پر بہترین کتابیں دستیاب ہیں ہیں مولوی صاحب کے دیگر کارناموں میں سے نمایاں کارنامہ اردو کالج کا قیام ہے جہاں اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر نہ صرف رائج کیا گیا بلکہ یہاں پر سائنسی و سماجی علوم کی تدریس بھی اردو زبان میں ہوتی ہے انہوں نے کامیاب تجربہ کیا اس کے بعد اس کو ایک جامعہ میں تبدیل کر دیا گیا وفاقی اردو یونیورسٹی کہا جاتا ہے انجمن ترقی اردو کی نئی عمارت اردو باغ کے نام سے موسوم ہے۔
اپنے اخلاق میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا تھا ایک مرتبہ کی ملاقات میں لوگ ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے تھے وہ چھوٹے بڑے ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے ان کی بزم بے تکلف ہوتی کی حد سے نہ گزر تے مستقل ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد جامعہ عثمانیہ میں مولوی صاحب کو اردو کے پروفیسر پر ماہانہ ایک ہزار روپے تنخواہ پر مامور کیا گیا حکومت کے ساتھ شرط تھی کہ جب تک جائیں گے ملازمت میں رہیں گے اور جب تک وہ خود علحدگی نہ چاہیں اس عہدے پر مامور رہیں گے ہاتھ پاؤں میں خود بھی تھی مگر مولوی صاحب نے جب دیکھا کہ اس سے وہ ترقی ادب کا کام خاطرخواہ طریقے سے نہیں کر سکتے وہ ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور دلی جا کر قیام کیا یا ۔
مولوی صاحب معمولی اور غریب آدمیوں میں اپنے مزاج سے احساس کمتری پیدا نہیں ہونے دیتے تھے وہ ایک بامروت انسان تھے ان کے ملاقاتی اگر ان سے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیتے یا ان کے کاموں میں ہرج ہوتا تو اس کا اظہار نہیں کرتے تھے اور ان کی باتوں کوکڑوا گھونٹ سمجھ کر پی جاتے تھے۔
حیدرآباد ابتدا ہی سے اردو کا اہم مرکز رہا ہے سلاطین گولکنڈہ اور بیجا پور نے اردو کی جو بھی خدمت کی وہ آج کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ان کی اردو نوازی کا سراغ لگانا بھی مولوی صاحب ہی کا کارنامہ ہے ورنہ آج سے کچھ سال پہلے تک اردو کا دکنی دور عالم اخفاء میں ہی تھا دور جدید میں حیدرآباد میں اردو کو مادری زبان کی حیثیت سے عام کرنا اور اسے اسکولوں اور کالجوں میں ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے رائج کرنے کا سہرا بھی مولوی صاحب کے سر ہے۔
اردو کالج سے اردو کی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے ہے اردو آرٹس کالج اور سائنس کالج گورنمنٹ اردو سائنس کالج کا سنگ بنیاد 1964 میں رکھا گیا اردو سائنس کالج میں تمام سائنسی مضامین کو انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ کی سطح پر اردو میڈیم میں تعلیم فراہم کی اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا نومبر 2002 میں اردو سائنس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جس کے بعد وفاقی اردو یونیورسٹی نے کلیہ سائنس میں اعلی تعلیم اور تحقیق کی ترقی کے لئے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے طلباء مستقبل کے معمار ہیں جو طلبہ وہاں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں وہ اپنے علاقے، معاشرے اور قوم کی خدمت میں سرکردہ ہیں اور بابائے اردو کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اردو سے محبت کا پیغام عام کر رہے ہیں۔اردو کی ترقی و ترویج میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی خدمات نا قابل فراموش ہیں اردو سے محبت کا جو بیج انہوں نے بویا تھا اور تا حیات اس کی آبیاری میں سرکرداں رہے وہ آج تناور درخت کی مانند فخر کے ساتھ سر بلند ہو کر حالات کا مقابلہ کر رہی ہے اور نا صرف اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہے بلکہ اپنے زندہ و جاوید ہونے کا احساس بھی پوری شدت سے دلاتی ہے۔
بابائے اردو جب تک حیات رہے انجمن کے ساتھ ساتھ ملک میں اردو کی ترقی و ترویج کے لیے سرگرداں رہے انجمن کے تحت قائم ہونے والے تعلیمی ادارے اردو کالج میں مختلف علوم کی تعلیم اور کالج کی عمارت میں توسیع کے لیے سرگرم عمل رہے ساتھ ہی ساتھ تصنیف و تالیف اور ترجمے کا کام بھی جاری و ساری رہا بابائے اردو مولوی عبدالحق جب پاکستان آئے ان کی عمر ستتر برس تھی پاکستان میں ان کی سرگرمیوں کا دورانیہ 14 برس ہے ۔ 1961 میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے یہ عمر تو آرام اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ہوتی ہے لیکن مولوی صاحب کی ہمت کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ضعیف العمری میں کس قدر تھکا دینے والے کام کیے یہ سب اردو زبان کے لیے جذبہ ہی تو تھا جس نے ان سے عظیم کام کروائے قیام پاکستان اور اس کے تحت بے شمار کتب کی تصنیف و تالیف و ترجمہ اور اشاعت ماہنامہ قومی زبان کی مسلسل اشاعت اردو کالج جواب وفاقی اردویونیورسٹی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے بابائے اردو کے خوابوں کی تعبیر ہے۔
