صنعتِ مراعات النظیر، صنعتِ حسنِ تعلیل، صنعتِ تجنیس، صنعتِ تکرار، صنعتِ تضاد یا طباق اور صنعتِ تلمیح:
(ہر ایک کی تعریف مع امثال)
(1) صنعتِ مراعاۃ النظیرکی تعریف مع شعری امثال:
کلام میں ایک لفظ کی مناسبت سے دیگر الفاظ کا لانا صنعتِ مرعاۃالنظیر کہلاتا ہے جیسے باغ کی مناسبت سے پھول، باغبان، پتّے، خار، پودے اور ٹہنیوں کے الفاظ لانا۔
مثال:
پتا پتا ، بوٹا بوٹا ، حال ہمارا جانے ہے
جانےنہ جانےگُل ہی نہ جانےباغ تو ساراجانے ہے
اس شعر میں باغ کی مناسبت سے پتا ،بوٹا اور گل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
(2) صنعتِ حسنِ تعلیل کی تعریف بمع شعری امثال:
کلام میں ایسی شاعرانہ وجہ یا علّت بیان کرنا جو حقیقت پر مبنی نہ ہو بلکہ شاعرانہ حُسْن کیلیے پیدا کی گئی ہو۔
مثال:
پیاسی تھی جو سِپاہ ِ خدا تین رات کی ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فُرات کی
ساحل سے موجوں کا ٹکرانا ایک فطری عمل ہے لیکن شاعر نے یہ علت بیان کی ہےکہ حضرت امام حسین ؓ کے جاں نثار مجاہد تین دن سے پیاسے تھے ۔ان کے غم اور اُن تک نہ پہنچنےکی شرم سے نہر فرات کی موجیں ساحل سے ٹکرا رہی ہیں۔وہ شدت غم اور انتہائی مایوسی کے عالم میں تھیں۔اس حسین اندازِ بیان اور اظہارِ خیال کو ’’صنعتِ حُسنِ تعلیل کہتے ہیں۔
مثلاً :
مری طرح سے ہیں ماہ و مہر بھی آوارہ
شایدیہ بھی ہیں کسی حبیب کی جستجو کرتے
چاند و سورج کا آسمان میں گردش کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن شاعر نے ان کی گردش کو اپنے عشق کی آوارگی سے علت کے طور پر بیان کیا ہے۔
(3) صنعتِ تجنیس کی تعریف مع شعری امثال:
کلام میں ایسے الفاظ لانا جو صورت میں یکساں اور معانی کے لحاظ سے مختلف ہوں جیسے
شعری مثال:
تمہارے دستِ نازُک کیلیے بھیجی تھی اک پہنچی
خبر پہنچی تو یہ پہنچی کہ وہ پہنچی نہیں پہنچی
مذکورہ بالا شعر میں ’’پہنچی‘‘ کا لفظ دو معانی رکھتا ہے۔
اوّل ’’پہنچنا ‘‘ دوم ’’ بازو بند‘‘ جو عورتوں کا ایک قسم کا زیور ہوتا ہے...
(4) َصنعتِ تکرار کی تعریف مع شعری امثال:
کلام میں ایک لفظ کا بار بار دہرانا صنعتِ تکرار کہلاتا ہے۔
مثال :
وہ تھا جلوہ آرا مگر تم نے موسیٰ
نہ دیکھا، نہ دیکھا، نہ دیکھا، نہ دیکھا
پتا پتا ، بوٹا بوٹا ، حال ہمارا جانے ہے
جانےنہ جانےگل ہی نہ جانےباغ تو ساراجانے ہے
(5) صنعتِ تضاد یا طباق کی تعریف مع شعری امثال:
اگر دو الفاظ شعر میں ایسے لائے جائیں جن کے معنیٰ ایک دوسرے کے اُلٹ یعنی متضاد ہوں تو اسے صنعتِ تضاد یا صنعتِ طباق کہتے ہیں۔ یہ دو لفظ اِسم بھی ہو سکتے ہیں ،فعل بھی اور حرف بھی۔
مثال:
خردمندوں سےکیاپوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اِس فِکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
ابتدا اور انتہا دونوں اسم ہیں اور باہم متضاد معنیٰ رکھتے ہیں۔اس طرح اس شعر میں صنعتِ تضاد سے کام لیا گیا ہے۔
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موجِ نسیم تھی، اِدھر آئی، اُدھر گئی
آئی اور گئی دونوں فعل ہیں اور باہم متضاد معنیٰ رکھتے ہیں۔
کچھ تری بات کو ثبات نہیں
ایک ’ہاں‘ ہے تو ’’ پانچ سات‘‘ نہیں
دوسرے مصرعے میں ہاں اورنہیں حروف ہیں اور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
(6) صنعتِ تلمیح کی تعریف مع شعری امثال:
کسی شعر یا مہارت میں کسی ضرب المثل یا اصطلاح یا لفظ یا ترکیب کے ذریعے سے کسی مشہور مسلے یا تاریخی رِوایت یا فرضی قصے کی طرف اِشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔
چند مشہور تلمیحات:
آبِ حیات۔۔سکندر۔۔خضر۔۔ظلمات۔۔آتشِ نمرود۔۔ابنِ مریم۔۔دمِ عیسیٰ۔۔اعجازِ مسیحائی۔۔مسیحا نفسی۔۔قُم۔۔ازل۔۔جامِ جم یا ساغرِ جم۔۔جوئے شیریا خسروِ شیرین یا کوہ کن یا فرہاد یا کوہِ بے ستون۔۔طوفانِ نوح۔۔
مثال :
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو دِل نہ کر قبول
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سِفال اچھا ہے
1 تبصرے
زبردست
جواب دیںحذف کریںif you want to ask something feel free to ask.